آپ نوجوان جو قرآن سے انسیت رکھتے ہیں، تلاوت سے شغف رکھتے ہیں، خوش الحان قاریوں کے چاہنے والے یا خود بھی خوش الحان قاری ہیں، اپنی قدر و منزلت کو سمجھئے۔ خداوند عالم آپ کو اجر نیک عطا فرمائے گا۔ آپ معاشرے کی اس عمومی حرکت کا ہراول دستہ ہیں۔ ممکن ہے کہ اس میں محنت زیادہ ہو لیکن اس کا اجر و ثواب بھی زیاد ہے۔
دعا:-
پروردگارا! ہمیں ہماری پوری عمر کے دوران قرآن کے ساتھ رکھ،
ہمیں دنیا و آخرت میں قرآن سے جدا نہ فرما،
قیامت میں ہمیں قرآن کے سائے میں رکھ،
ہمیں قرآنی زندگی کے زیر سایہ الہی و اسلامی اور دین اسلام کی پسندیدہ زندگی عطا کر۔
پروردگارا! محمد و آل محمد کے صدقے میں حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔
ہم کو قرآن و اہلبیت سے جدا نہ کر۔
السّلام علیکم و رحمةاللَّه و برکاته۔ (۲ اگست ۲۰۱۱)
وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّهِ جَمیعًا وَلا تَفَرَّقوا. (سوره مبارکه آل عمران آیه ۱۰۳) اس زمانے میں شیطانی طاقتیں، طاغوتی طاقتیں اور ان سب کا سرغنہ امریکہ ، انسانیت کے خلاف شیطنت اور سرکشی کے مظہر ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مختلف ملکوں کو دھمکی دیتا ہے ، قوموں پر حملہ کرتا ہے، تمام انسانی قوانین کے خلاف انسانوں کے ساتھ رفتار کرتا ہے، بشریت کے قابل قبول انسانی قوانین میں سے کسی بھی قانون کا احترام نہیں کرتا ہے۔ آپ ملاحظہ فرمائیں، دیکھیں عراق میں ان لوگوں نے کیا کارنامہ انجام دیا، افغانستان میں کیا کارنامہ انجام دیا، ان لوگوں کو نہ جنگی قیدی سمجھتے ہیں، نہ سیاسی قیدی جانتے ہیں اور نہ تو عادی زندگی کے حقوق کی حد تک ان کی اہمیت کے قائل ہیں۔ جہاں کہیں بھی یہ پہنچے، چاہے امریکہ لاطین ہو، یا افریقہ اور ایشیا ہو ، ہر جگہ فساد پھیلایا۔ یہ شر اور شرارت کے مظہر ہیں۔ یہ لوگ اس زمانے میں اسلامی دنیا کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور عالم اسلام کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس کا علاج اور راہ حل کیا ہے ؟۔ اس کے علاج و راہ حل کو قرآن نے ہمیں بتایا ہے : «وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّهِ جَمیعًا وَلا تَفَرَّقوا. (سوره مبارکه آل عمران آیه ۱۰۳)»، اسلامی طاقت ایک بہت بڑی طاقت ہے اور یہ سب قرآن کی برکت حاصل ہو گی۔ قرآن کو سمجھنے ، اس میں تدبر کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے پڑھیں۔ اپنے ملک کے قلبی حدود میں عمل کرنے کے لئے اور اپنی ذاتی مملکت کے وجود میں اور اسلامی سماج کے اندر عمل کرنے کے لئے بھی پڑھیں۔ قرآن مسلمانوں کو فکر عطا کرتا ہے، راستہ دکھاتا ہے، انہیں بیدار کرتا ہے، ان کو طاقتور اور قوی بناتا ہے ، انہیں قوت قلب بخشتا ہے، یہ سب قرآن کی برکتیں ہیں۔ ۱۳۸۲/۷/۶
اس سورۃ مبارکہ کو آیت ہَلۡ اَتٰی عَلَی الۡاِنۡسَانِ۔۔۔۔ میں مذکور لفظ انسان سے سورۃ الۡاِنۡسَانِ کہتے ہیں اور حِیۡنٌ مِّنَ الدَّہۡرِ میں مذکور لفظ الدَّہۡرِ سے سورۃ الدَّہۡرِ بھی کہتے ہیں۔
یہ سورہ جمہور کے نزدیک مدنی ہے۔ اگرچہ حضرت ابن عباس کی ایک روایت میں ہے کہ یہ مکی ہے لیکن یہ روایت معارض ہے اس روایت کے جو خود ابن عباس سے منقول ہے جسے ابن ضرلیس، ابن مردویہ اور بیہقی نے نقل کیا ہے۔ اس میں صریحاً مذکور ہے کہ یہ سورہ مدنی ہے۔
پھر قابل توجہ یہ ہے کہ اس سورۃ میں اسیر کو کھانا کھلانے کا ذکر ہے۔ یہ دلیل ہے کہ سورۃ مدنی ہے چونکہ اسیر بنانے کا عمل ہجرت کے بعد وجود میں آیا ہے۔
چنانچہ تفسیر بیضاوی نے لکھا ہے:
وَّ اَسِیۡرًا یعنی اسراء الکفار فانہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یوتی لاسیر فیدفعہ الی بعض المسلمین فیقول احسن الیہ۔
وَّ اَسِیۡرًا سے مراد کفار کے اسیر ہیں چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی اسیر لایا جاتا تو اسے کسی مسلمان کے حوالے کر دیتے اور فرماتے اس پر احسان کرو۔
ابن کثیر نے ابن عباس سے نقل کیا ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں:
کان اسراء ھم یومئذ مشرکین و یشھد لھذا ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم امر اصحابہ یوم بدر ان یکرموا الاساری۔ان دنوں اسیر، مشرکین ہوتے تھے۔ اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن اصحاب کو حکم دیا اسیروں پر احسان کرو۔
تفسیر مظہری میں آیا ہے:
بل نفس الایۃ یقتضی کونھا مدنیّۃ لان الاساری لم تکن الا بالمدینۃ لم یکن بمکۃ جھادا ولا اسراً۔خود آیت یہ تقاضا کرتی ہے کہ یہ مدنی ہے کیونکہ اسیر تو صرف مدینہ میں ہوتے تھے۔ مکہ میں تو نہ جہاد تھا، نہ اسیر۔
اس لیے اکثر مفسرین نے کہا ہے یہاں اسیر سے مراد مشرک اسیر ہے اور یہ بات نہایت واضح ہے کہ مکہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں میں مشرک اسیر نہ تھے۔
یقینا یہ تمہارے لیے جزا ہے اور تمہاری یہ محنت قابل قدر ہے۔
تفسیرآیات ۲۰:👇
اور آپ جہاں بھی نظر دوڑائیں گے وہاں نعمت ہی نعمت نظر آئے گی۔ دنیا کی طرح نہیں ہے کہ ایک جگہ نعمت پائی جاتی ہے، دوسری جگہ نہیں پائی جاتی۔ پھر نَعِیْمًا کا ذکر نکرہ کے ساتھ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ نعمت بھی عظیم ہو گی۔
۲۔ مُلۡکًا کَبِیۡرًا: اور عظیم سلطنت کا مشاہدہ کرو گے۔ روایات کے مطابق عام جنتی کو بھی ایک سلطنت مل جائے گی۔ چنانچہ روایت میں ہے:
و ان ادناھم منزلۃ ینظر فی ملکہ من الف عام یری اقصاہ کما یری ادناہ۔۔۔۔ (بحار الانوار ۸: ۱۱۱)جنت کے کمترین درجہ والا اپنی سلطنت کو ایک ہزار سال کی مسافت کے فاصلے سے دیکھ لے گا اور دور ترین نقطے کو اس طرح دیکھے گا جس طرح نزدیک ترین نقطہ ہے۔
دوسری حدیث میں ہے:
ان ادنی اہل الجنۃ منزلا من لہ ثمانون الف خادم و اثنتان و تسعون درجۃ۔۔۔۔ (روضۃ الواعظین ۲: ۵۰۵)جنت کے کمترین درجہ والے کے لیے جنت میں اسی ہزار خادم ہوں گے اور بیانوے درجات پر فائز ہو گا۔
یہ عام اور معمول کی جنت ہے۔ اس آیت میں اہل بیت اطہار علیہم السلام کے لیے جس سلطنت کا ذکر ہے وہ جنت کے اعتبار سے عظیم سلطنت ہو گی۔ جس جنت کا ’’معمول‘‘ ہمارے لیے قابل اندازہ نہیں ہے، اس کا ’’عظیم‘‘ ہمارے لیے کیسے قابل تصور ہوگا اور جس سلطنت کو اللہ تعالیٰ عظیم فرمائے اس کی عظمت کا ہم کیسے اندازہ لگا سکتے ہیں۔
الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 9، صفحہ 424
تفسیر آیات ۲۱:👇
تشریح کلمات
سُنۡدُسٍ:دیباج کا کپڑا۔ کہتے ہیں سندس ریشم کا وہ کپڑا ہے جو نہایت باریک ہوتا ہے۔
اِسۡتَبۡرَقٌ:اطلس۔
تفسیر آیات
جنت والوں کی شاہانہ زندگی کا ذکر ہے کہ ان کے تن پر دیباج و اطلس کے نرم و نازک کپڑے ہوں گے اور ہاتھوں میں چاندی کے کنگن پہنے ہوئے ہوں گے۔ یہ اشارہ ہے شاہانہ زندگی کی طرف چونکہ اس دنیا میں جو لوگ شاہانہ زندگی گزارتے ہیں وہ اس طرح کی چیزوں سے اپنی شاہانہ زندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے دربار میں فرمایا: میں اللہ رب العالمین کا فرستادہ ہوں تو فرعون نے کہا تھا:
فَلَوۡ لَاۤ اُلۡقِیَ عَلَیۡہِ اَسۡوِرَۃٌ مِّنۡ ذَہَبٍ۔۔۔ (۴۳ زخرف: ۵۳)(اگر یہ اللہ کا نمائندہ ہے تو) اس پرسونے کے کنگن کیوں نہیں اتارے گئے۔
لہٰذا کنگن سے مراد وہ زیورات نہیں ہیں جو عورتیں پہنتی ہیں۔
۲۔ وَ سَقٰہُمۡ: یہ مشروب، اس سے پہلے مذکور دو مشروبوں سے مختلف، ایک پاکیزہ قسم کا ہو گا جس میں ایسی کوئی خاصیت نہ ہو گی جو انسان کے ذکر خدا سے تساہل برتنے کا سبب بنے بلکہ اس کے پینے سے ہر قسم کی غیر مطلوب چیزیں ختم ہو جائیں گی: یطھرہم عن کل شیء سوی اللّٰہ۔ (مجمع البیان) مشروب اہل جنت کو اللہ کے سوا سب چیزوں سے پاک کر دے گا۔
تفسیر آیات ۲۲ :👇
۔ اِنَّ ہٰذَا یہ اشارہ جنت کی ان نعمتوں کی طرف ہے جن کا ذکر گزشتہ آیات میں آیا ہے۔
۲۔ کَانَ لَکُمۡ جَزَآءً: پھر ان پاکیزہ ذوات سے خطاب کر کے فرمایا: یہ سب تمہارے لیے جزا اور ثواب کے طور پر ہے۔
۳۔ وَّ کَانَ سَعۡیُکُمۡ مَّشۡکُوۡرًا: یہ سب کچھ بلا استحقاق نہیں ملا کرتا بلکہ تمہاری ان محنتوں کے صلے میں ہے جنہیں تم نے دنیا میں تحمل کیا ہے اور اور یہ اجر، یہ ثواب ان زحمتوں کی قدردانی کے طور پر ہے جو رضائے رب کے لیے تم نے دنیا میں تحمل کی ہیں۔
ایک اہم اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ قرآن مجید جب بھی جنت کی نعمتوں کا ذکر کرتا ہے ان کے ساتھ حور العین کا ذکر کرتا ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں تمام نعمتوں کا ذکر آیاہے، نوعمر خادموں کا بھی ذکر آیا ہے لیکن جنت کی ایک اہم ترین نعمت، حور العین کا ذکر نہیں آیا۔ جناب آلوسی کو بھی روح المعانی میں اس بات کا ذکر کرنا ہی پڑا کہ یہ آیات اہل البیت (علیہم السلام) کی شان میں نازل ہونے کے بقول ان میں حور العین کا ذکر نہیں آیا جب کہ ان میں نو عمر خادموں تک کا ذکر آیا ہے: رعایۃ لحرمۃ البتول و قرۃ عین الرسول۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں ٹھنڈک حضرت بتول (س) کی حرمت کا لحاظ کرتے ہوئے حور العین کا ذکر نہیں کیا گیا۔