ہمارے رب! ہم جس بوجھ کے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے وہ ہمارے سر پر نہ رکھ۔۔ سورہ بقرہ آیہ 286
انسان پر اس کی طاقت کے مطابق ذمے داری اور مسؤ لیت عائد ہو تی ہے۔ طاقت کا دائرہ جتنا وسیع ہو گا اسی مقدارمیں اس کی مسؤلیت بھی وسیع ہوتی جائے گی۔ چنانچہ کم عقل کی نسبت عاقل پر اور کم علم کی نسبت عالم پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔
جس بوجھ کے اٹھانے کی طاقت ہم نہیں رکھتے وہ ہمارے سر پر نہ رکھ۔ اس سے غیر ممکن اور محال مراد نہیں ہے۔ کیونکہ کوئی عاقل کسی دوسرے کو ناممکن چیزوں کا حکم نہیں دیتا بلکہ مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ سے مراد وہ پرمشقت امور ہیں جن سے انسان عام طورپر عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔
خطا اور نسیان کی صورت میں اللہ سے عفو، مغفرت اور رحم طلب کرنے کے ذکر کے بعد ارشاد ہوا: اَنۡتَ مَوۡلٰىنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ ’’تو ہی ہمارا مالک اور کارساز ہے، پس کفار کے مقابلے میں ہماری نصرت فرما۔‘‘ اس جملے میں لفظ مَولَا کا معنی واضح ہو جاتا ہے کہ مدد اور نصرت مَولاَ سے طلب کی جاتی ہے۔ یہاں انۡصُرۡنَا کو فائے تفریع کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ مَولاَ وہ ہے جو تصرف کا حق رکھتا ہو اور اسے ولایت و حاکمیت حاصل ہو۔
مدت زمان: 13 ثانیه