مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ۚ وَ لَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَجۡرَہُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۹۷﴾
ترجمه: جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر (بھی) ضرور دیں گے ۔
تفسیر آیات
۱۔ مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا: عمل صالح انجام دینے والا صابر اور مؤمن ہو تو اس کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مرد یا عورت ہونے کو عمل کی قدر و قیمت میں کوئی دخل نہیں ہے۔ عورت اسلام کی نظر میں مرد سے کم نہیں ہے بلکہ عمل صالح کا اجر و ثواب پانے میں مرد اور عورت مساوی ہیں۔ اس سے ہر اس فرسودہ نظریے کی تردید ہو گئی جو عورت کو پست و حقیر مخلوق ٹھہراتا رہا۔
۲۔ وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ: عمل صالح کی قدر و قیمت ایمان کے ساتھ مشروط ہے۔ پہلے ہی ہم ذکر کر چکے ہیں کہ صرف عمل کا حسن کافی نہیں ہے بلکہ عمل کرنے والے میں حسن شرط ہے۔ دوسرے لفظوں میں عمل کا صالح ہونا کافی نہیں ہے بلکہ عمل کرنے والے کا بھی صالح ہونا ضروری ہے۔ جب فعل اور فاعل دونوں میں حسن و صلاح آئے گا تو اس عمل کی قدر و قیمت بنتی ہے:
وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالۡاِیۡمَانِ فَقَدۡ حَبِطَ عَمَلُہٗ۔۔۔ (۵ مائدہ: ۵)
اور جو کوئی ایمان سے منکر ہو یقینا اس کا عمل ضائع ہو گیا۔
جیسے والدین کے عاق کی ہر خدمت بے قیمت ہے۔چور چوری کے مال سے رفاہی خدمات انجام دیتا ہے۔ اسی طرح بڑی طاقتیں تیسری دنیا کا خون چوس کر انسانیت کی خدمت انجام دینے اور انسانی حقوق کے دفاع کا دعوی کرتی ہیں۔
۳۔ فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً: نیک عمل انجام دینے والے پاکباز لوگ نہ صرف اخروی زندگی سنوارتے ہیں بلکہ ان کو دنیا میں بھی ایک پاکیزہ زندگی مل جاتی ہے۔ ان کی زندگی بد عمل لوگوں کی زندگی کی طرح نہیں ہوتی۔ اگرچہ دونوں کی زندگی کی نوعیت ایک ہے لیکن خصوصیت ایک نہیں ہے۔ چنانچہ آیت کی تعبیر یہ ہے کہ ہم اس مؤمن کو پاکیزہ زندگی دیں گے۔ حیات طیبہ کے ساتھ احیا کریں گے۔ یہ ایک خاص حیات ہے جو اللہ صرف مؤمن کو دیتا ہے۔ وہ اس پاکیزہ زندگی کے ساتھ جو کامیابیاں اور زندگی کی لذت حاصل کرتا ہے، وہ بد عمل لوگوں کو میسر نہیں آتی۔ نیک کردار بوریا نشین جس کیف و سرور کے لمحات اپنے رب کی بارگاہ میں گزارتا ہے وہ کسی امیر و شاہ کو نصیب نہیں ہوتے۔ غریب پرور کو مساکین و فقرا کی داد رسی میں جو لذت حاصل ہوتی ہے وہ غریبوں کا خون چوسنے والوں کو کبھی نصیب نہیں ہوتی۔
حضرت علی علیہ السلام سے حَیٰوۃً طَیِّبَۃً کے بارے میں سوال ہوا تو آپؑ نے فرمایا: ھی القناعۃ۔ (نہج البلاغۃ کلمات قصار: ۲۲۹) وہ قناعت ہے۔ چونکہ قناعت سے طمع، لالچ ختم اور حرام و شبہات سے پرہیز آسان ہو جاتا ہے اور زندگی پاکیزہ ہو جاتی ہے۔ قناعت حَیٰوۃً طَیِّبَۃً کا ایک مصداق نہیں بلکہ مکمل تعریف ہے۔ چنانچہ قرآن، اطاعت خدا و رسولؐ کو لبیک کہنے کو حیات قرار دیتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ۔۔۔۔ (۸ انفال:۲۴)
اے ایمان والو! اللہ اور رسول کو لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائیں۔۔۔۔
۴۔ وَ لَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَجۡرَہُمۡ: ان کو ان کے بہتر عمل کی وجہ سے آخرت میں ثواب ملے گا۔ واضح رہے یہ آیت ثواب دارین کا ذکر فرما رہی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں پاکیزہ زندگی ہے اور آخرت میں ثواب ہے۔
اہم نکات
۱۔ جزائے اعمال میں مرد و زن مساوی ہیں۔
۲۔ ایمان سے عمل کی قدر و قیمت بنتی ہے۔
۳۔ نیک کردار مؤمن کو دنیا میں پاکیزہ زندگی اور آخر میں اجر ملتا ہے۔
الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 4، صفحہ 463