التبیان کرگل لداخ

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

التبیان کرگل لداخ

وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِینَ

 

 

{ إِنَّ هَـٰذَا ٱلۡقُرۡءَانَ یَهۡدِی لِلَّتِی هِیَ أَقۡوَمُ وَیُبَشِّرُ ٱلۡمُؤۡمِنِینَ ٱلَّذِینَ یَعۡمَلُونَ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ أَنَّ لَهُمۡ أَجۡرࣰا کَبِیرࣰا }[سُورَةُ الإِسۡرَاءِ: ٩]

یہ قرآن یقینا اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھی ہے اور ان مومنین کو جو نیک اعمال بجا لاتے ہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔

 

جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کتاب عنایت فرمائی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنایا:

وَ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَـنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَلَّا تَتَّخِذُوۡا۔۔۔۔ (۱۷ اسراء: ۲)

اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس (کتاب) کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت قرار دیا۔۔۔۔

 

اسی طرح یہ قرآن بھی ذریعہ ہدایت ہے اور اس ہدایت سے فائدہ اٹھانے والوں کو یہ قرآن بشارت دیتا ہے۔ کامیابی کی بشارت، اجر عظیم کی بشارت۔

۱۔ اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ: یہ قرآن انسانیت کی ایک ایسی طریقت اور شریعت کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو اقوم الطرق ہے۔ تمام نظامہائے حیات و دستور ہائے زندگی میں جامع ترین اور مستحکم ترین نظام کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔ قرآن، امت قرآن کو جس منزل کی طرف لے جانا چاہتا ہے وہاَقۡوَمُ ہے۔

 

نہایت مضبوط بنیادوں پر استوار ہے یہ نظام حیات:

  • اَقۡوَمُ یعنی ایسا جامع نظام حیات ہے جس میں زندگی کا کوئی گوشہ نظر انداز نہیں کیا گیا

  • اَقۡوَمُ یعنی ایسا معتدل نظام زندگی ہے جو انسانی فطری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔

  • اَقۡوَمُ یعنی ایسا نظام حیات جو عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورا کرتا ہے۔

  • اَقۡوَمُ یعنی ہر عصر کے لیے قابل عمل نظام حیات ہے۔

  • اَقۡوَمُ یعنی دنیا و آخرت دونوں کے تقاضے پورا کرتا ہے۔

  • اَقۡوَمُ یعنی اس پر عمل کرنا آسان اور انسانی طاقت کی حدود میں ہے۔

  • اَقۡوَمُ یعنی اس نظام زندگی کی شقوں میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

  • اَقۡوَمُ یعنی اس نظام زندگی میں کوئی روحانی اور مادی پہلو تشنہ نہیں ہے۔

 

۲۔ وَ یُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ: ایک جامع نظام حیات فراہم ہونے کے بعد اس پر ایمان لانے کی نوبت آتی ہے۔ ایمان کے بعد دستور حیات پر عمل کی نوبت آتی ہے اور پھر عمل کرنے میں کامیاب ہونے والوں کے لیے بشارت ملنا ایک قدرتی بات ہے۔

اہم نکات

۱۔ قرآنی بشارت، اس کے نظام اقوم پر عمل کرنے والوں کے لیے ہے۔

الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 4، صفحہ 494

آیہ 11 👇👇👇👇

 

وَ یَدۡعُ الۡاِنۡسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَہٗ بِالۡخَیۡرِ ؕ وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ عَجُوۡلًا﴿۱۱﴾

اور انسان کو جس طرح خیر مانگنا چاہیے اسی انداز سے شر مانگتا ہے اور انسان بڑا جلد باز ہے۔

تفسیر آیات

مکہ والے حضورؐ سے بار بار یہ مطالبہ کرتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے رہتے ہو۔ اس طرح وہ رحمت خدا مانگنے کی بجائے عذاب خدا مانگتے ہیں۔ دوسرے فقرے میں اس حماقت کے پیچھے موجود محرک کا ذکر ہے۔ وہ ہے انسان کی عجلت پسندی۔ یہ خصلت انسان کو عزت کی جگہ ذلت، کامیابی کی جگہ ناکامی اور خیر کی بجائے شر کی طرف لے جاتی ہے۔ چنانچہ انسان کی بیشتر ناکامیوں کا سبب یہی عجلت پسندی ہے۔ عجلت پسندی کا مغلوب انسان زمینی حقائق کی جگہ ذہنی آرزوؤں پر چلتا ہے اور ناکام ہو جاتا ہے۔

 

سابقہ آیت کے ساتھ اس آیت کا ربط اس طرح ہے کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھی ہے اور اس پر چلنے والوں کو بشارت دیتا ہے لیکن یہ عجلت پسند انسان اللہ کی عطا کردہ اس خیر کی جگہ شر کی طلب میں نکلتا ہے اور اس قرآن سے ہدایت حاصل کر کے رحمت الٰہی کا منتظر رہنے کی جگہ جلد بازی سے کام لیتے ہوئے شر کے دامن میں پھنس جاتا ہے۔ اعاذنا اللّٰہ من ذلک۔

 

اہم نکات

۱۔ انسان نادانی میں اپنی مصلحت کے خلاف دعا کر بیٹھتا ہے۔

۲۔ عجلت پسندی سے ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔

                               الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 4، صفحہ 495

دریافت


دریافت

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی