التبیان کرگل لداخ

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

التبیان کرگل لداخ

وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِینَ

۳ مطلب در ژانویه ۲۰۲۵ ثبت شده است

 


دریافت

وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّ نَحۡشُرُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَعۡمٰی﴿۱۲۴﴾

 اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔

 

قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرۡتَنِیۡۤ اَعۡمٰی وَ قَدۡ کُنۡتُ بَصِیۡرًا﴿۱۲۵﴾

 وہ کہے گا: میرے رب! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو بینا تھا؟

 

قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتۡکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیۡتَہَا ۚ وَکَذٰلِکَ الۡیَوۡمَ تُنۡسٰی﴿۱۲۶﴾

جواب ملے گا: ایسا ہی ہے! ہماری نشانیاں تیرے پاس آئی تھیں تو نے انہیں بھلا دیا تھا اور آج تو بھی اسی طرح بھلایا جا رہا ہے۔

تشریح کلمات

الضنک:( ض ن ک) کسی مقام یا زندگی کے تنگ ہو جانے کے معنی میں ہے۔

 

تفسیر آیات

وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ: انسان اپنے وجود کے تمام زاویوں کے ماوراء ایک شعور رکھتا ہے۔ یہ شعور اپنے خالق سے مانوس ہونا ہے۔ جس ہستی نے اس کے وجود کے تاروں کو جوڑا ہے، اس ہستی کا جس قدر قرب حاصل ہو اس قدر شعور کو سکون و سرور مل جاتا ہے اور اس سے جدائی اور دوری کی صورت میں یہ بے سکون ہو جاتا ہے خواہ دنیا کی ساری دولت اور حکومت اس کو میسر آ جائے۔

اس سے یہ نکتہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ انسان صرف اس دنیا کی زندگی کے لیے پیدا نہیں ہوا کیونکہ اس دنیا کی ریل پیل سے اس کا جی نہیں بھرتا بلکہ وہ مزید بے سکون ہو جاتا ہے۔

اگر انسان صرف اسی دنیاوی زندگی کے لیے پیدا ہوا ہوتا تو اس دنیا کی چیزوں سے اسے اس طرح سکون ملنا چاہیے تھا جس طرح مچھلی کو پانی میں سکون ملتا ہے۔

لِمَ حَشَرۡتَنِیۡۤ اَعۡمٰی: دنیا کی زیب و زینت میں انہماک کی وجہ سے اس دنیا دار کی چشم ضمیر نابینا ہو جاتی ہے اور قیامت کے دن انسان اسی حالت میں محشور ہو جاتا ہے جس حالت میں اس نے دنیا کی زندگی گزاری ہے۔ لہٰذا دنیا میں اس کی حسی بصارت سالم تھی لیکن قیامت کے روز دنیا میں اس کے ضمیر اور وجدان کی کیفیت کے مطابق معاملہ ہو گا۔

 

وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا (۱۷ بنی اسرائیل:۷۲)

اور جو شخص اس دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ (اندھے سے بھی) زیادہ گمراہ ہو گا۔

 

الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 5، صفحہ 

 

مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ۚ وَ لَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَجۡرَہُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۹۷﴾

ترجمه: جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر (بھی) ضرور دیں گے ۔


دریافت

 

تفسیر آیات

 

۱۔ مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا: عمل صالح انجام دینے والا صابر اور مؤمن ہو تو اس کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مرد یا عورت ہونے کو عمل کی قدر و قیمت میں کوئی دخل نہیں ہے۔ عورت اسلام کی نظر میں مرد سے کم نہیں ہے بلکہ عمل صالح کا اجر و ثواب پانے میں مرد اور عورت مساوی ہیں۔ اس سے ہر اس فرسودہ نظریے کی تردید ہو گئی جو عورت کو پست و حقیر مخلوق ٹھہراتا رہا۔

۲۔ وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ: عمل صالح کی قدر و قیمت ایمان کے ساتھ مشروط ہے۔ پہلے ہی ہم ذکر کر چکے ہیں کہ صرف عمل کا حسن کافی نہیں ہے بلکہ عمل کرنے والے میں حسن شرط ہے۔ دوسرے لفظوں میں عمل کا صالح ہونا کافی نہیں ہے بلکہ عمل کرنے والے کا بھی صالح ہونا ضروری ہے۔ جب فعل اور فاعل دونوں میں حسن و صلاح آئے گا تو اس عمل کی قدر و قیمت بنتی ہے:

 

وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالۡاِیۡمَانِ فَقَدۡ حَبِطَ عَمَلُہٗ۔۔۔ (۵ مائدہ: ۵)

اور جو کوئی ایمان سے منکر ہو یقینا اس کا عمل ضائع ہو گیا۔

 

جیسے والدین کے عاق کی ہر خدمت بے قیمت ہے۔چور چوری کے مال سے رفاہی خدمات انجام دیتا ہے۔ اسی طرح بڑی طاقتیں تیسری دنیا کا خون چوس کر انسانیت کی خدمت انجام دینے اور انسانی حقوق کے دفاع کا دعوی کرتی ہیں۔

۳۔ فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً: نیک عمل انجام دینے والے پاکباز لوگ نہ صرف اخروی زندگی سنوارتے ہیں بلکہ ان کو دنیا میں بھی ایک پاکیزہ زندگی مل جاتی ہے۔ ان کی زندگی بد عمل لوگوں کی زندگی کی طرح نہیں ہوتی۔ اگرچہ دونوں کی زندگی کی نوعیت ایک ہے لیکن خصوصیت ایک نہیں ہے۔ چنانچہ آیت کی تعبیر یہ ہے کہ ہم اس مؤمن کو پاکیزہ زندگی دیں گے۔ حیات طیبہ کے ساتھ احیا کریں گے۔ یہ ایک خاص حیات ہے جو اللہ صرف مؤمن کو دیتا ہے۔ وہ اس پاکیزہ زندگی کے ساتھ جو کامیابیاں اور زندگی کی لذت حاصل کرتا ہے، وہ بد عمل لوگوں کو میسر نہیں آتی۔ نیک کردار بوریا نشین جس کیف و سرور کے لمحات اپنے رب کی بارگاہ میں گزارتا ہے وہ کسی امیر و شاہ کو نصیب نہیں ہوتے۔ غریب پرور کو مساکین و فقرا کی داد رسی میں جو لذت حاصل ہوتی ہے وہ غریبوں کا خون چوسنے والوں کو کبھی نصیب نہیں ہوتی۔

حضرت علی علیہ السلام سے حَیٰوۃً طَیِّبَۃً کے بارے میں سوال ہوا تو آپؑ نے فرمایا: ھی القناعۃ۔ (نہج البلاغۃ کلمات قصار: ۲۲۹) وہ قناعت ہے۔ چونکہ قناعت سے طمع، لالچ ختم اور حرام و شبہات سے پرہیز آسان ہو جاتا ہے اور زندگی پاکیزہ ہو جاتی ہے۔ قناعت حَیٰوۃً طَیِّبَۃً کا ایک مصداق نہیں بلکہ مکمل تعریف ہے۔ چنانچہ قرآن، اطاعت خدا و رسولؐ کو لبیک کہنے کو حیات قرار دیتا ہے:

 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ۔۔۔۔ (۸ انفال:۲۴)

اے ایمان والو! اللہ اور رسول کو لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائیں۔۔۔۔

 

۴۔ وَ لَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَجۡرَہُمۡ: ان کو ان کے بہتر عمل کی وجہ سے آخرت میں ثواب ملے گا۔ واضح رہے یہ آیت ثواب دارین کا ذکر فرما رہی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں پاکیزہ زندگی ہے اور آخرت میں ثواب ہے۔

 

اہم نکات

۱۔ جزائے اعمال میں مرد و زن مساوی ہیں۔

۲۔ ایمان سے عمل کی قدر و قیمت بنتی ہے۔

۳۔ نیک کردار مؤمن کو دنیا میں پاکیزہ زندگی اور آخر میں اجر ملتا ہے۔


الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 4، صفحہ 463

: اس باب میں سال کے مہینوں کے اعمال نوروز کی فضیلت اور اس کے اعمال اور رومی مہینوں کے اعمال مذکور ہیں اور اس میں کئی فصلیں ہیں۔

: پہلی فصل ---------------------------- ماہ رجب کی فضیلت اور اس کے اعمال

واضح رہے کہ ماہ رجب، شعبان اور رمضان بڑی عظمت اور فضیلت کے حامل ہیں اور بہت سی روایات میں ان کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔

جیساکہ حضرت محمد (ص) کا ارشاد پاک ہے کہ ماہ رجب خداکے نزدیک بہت زیادہ بزرگی کا حامل ہے۔

کوئی بھی مہینہ حرمت و فضیلت میں اس کا ہم پلہ نہیں اور اس مہینے میںکافروں سے جنگ و جدال کرنا حرام ہے۔

آگاہ رہو رجب خدا کا مہینہ ہے شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔

رجب میں ایک روزہ رکھنے والے کو خدا کی عظیم خوشنودی حاصل ہوتی ہے‘ غضب الہی اس سے دور ہوجاتا ہے‘ اور جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اس پر بند ہوجاتا ہے۔

امام موسٰی کاظم (ع) فرماتے ہیں کہ ماہ رجب میں ایک روزہ رکھنے سے جہنم کی آگ ایک سال کی مسافت تک دور ہوجاتی ہے اورجو شخص اس ماہ میں تین دن کے روزے رکھے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔......  نیز حضرت فرماتے ہیں کہ رجب بہشت میں ایک نہر ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے اور جو شخص اس ماہ میں ایک دن کا روزہ رکھے تو وہ اس نہر سے سیراب ہوگا۔

امام جعفر صادق (ع) سے مروی ہے کہ حضرت رسول اکرم نے فرمایا: کہ رجب میری امت کے لیے استغفار کامہینہ ہے۔ پس اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ طلب مغفرت کرو کہ خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔

رجب کو اصبّ بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اس ماہ میںمیری امت پر خدا کی رحمت بہت زیادہ برستی ہے۔ پس اس ماہ میںبہ کثرت کہا کرو:’’ میں خدا سے بخشش چاہتا ہوں

اور توبہ کی توفیق مانگتا ہوں‘‘

ابن بابویہ نے معتبر سند کے ساتھ سالم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں اوخر رجب میں امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے میری طرف دیکھتے ہوئے فرمایا کہ اس مہینے میں روزہ رکھا ہے؟

میں نے عرض کیا فرزند رسول (ص) ! وﷲ نہیں! تب فرمایا کہ تم اس قدر ثواب سے محروم رہے ہوکہ جسکی مقدارسوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا کیونکہ یہ مہینہ ہے جسکی فضیلت تمام مہینوں سے زیادہ اور حرمت عظیم ہے اور خدا نے اس میں روزہ رکھنے والے کا احترام اپنے اوپرلازم کیا ہے۔

میںنے عرض کیا اے فرزند رسول (ص)! اگرمیں اسکے باقی ماندہ دنوں میں روزہ رکھوں توکیا مجھے وہ ثواب مل جائیگا؟

پ (ص)نے فرمایا: اے سالم! جو شخص آخر رجب میں ایک روزہ رکھے تو خدا اسکو موت کی سختیوں اور اس کے بعدکی ہولناکی اورعذاب قبر سے محفوظ رکھے گا۔جوشخص آخر ماہ میں دوروزے رکھے وہ پل صراط سے آسانی کے ساتھ گزرجائے گا اور جو آخررجب میں تین روزے رکھے اسے قیامت میں سخت ترین خوف‘تنگی اورہولناکی سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کوجہنم کی آگ سے آزادی کاپروانہ عطا ہوگا۔

واضح ہوکہ ماہ رجب میں روزہ رکھنے کی فضیلت بہت زیادہ ہے جیساکہ روایت ہوئی ہے اگر کوئی شخص روزہ نہ رکھ سکتاہو وہ ہرروز سو مرتبہ یہ تسبیحات پڑھے تو اس کو روزہ رکھنے کاثواب حاصل ہو.

سُبْحَانَ الْإِلَهِ الْجَلِیلِ سُبْحَانَ مَنْ لا یَنْبَغِی التَّسْبِیحُ اِلّا لَهُ سُبْحَانَ الْأَعَزِّ الْأَکْرَمِ سُبْحَانَ مَنْ لَبِسَ الْعِزَّ وَ هُوَ لَهُ أَهْلٌ

مفاتیح الجنان شیخ