التبیان کرگل لداخ

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

التبیان کرگل لداخ

وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِینَ

۱۴ مطلب در مارس ۲۰۲۳ ثبت شده است


اهل قرآن کی ذمه داری:

قال الله تعالی:

اِنَّ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذا یُتْلى عَلَیْهِمْ یَخِرُّونَ لِلْأَذْقانِ سُجَّداً . 

"سوره اسراء- آیه 107"

جن کو اس کے پہلے علم دے دیا گیا ہے جب  ان پر (آیتوں کی) تلاوت ہوتی ہے تو منہ کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں.

 

پیامبر صلی الله علیه و آله:

یا مَعاشِرَ قُرّاءِ القرآنِ! اتَّقُوا اللّه َ عَزَّ وَ جَلَّ فیما حَمَّلَـکُمْ مِنْ کِتابِهِ، فَاِنّى مَسؤولٌ وَ اِنَّـکُمْ مَسْؤولونَ اِنّى مَسئُولٌ عَنْ تَبلیغِ الرِّسالَةِ، وَ اَمّا اَ نْتُمْ فَـتُسْأَلونَ عَمّا حُمِّلْتُمْ مِنْ کِتابِ اللّه ِ وَ سُنَّتى۔

اے قرآن کے قاریوں کی جماعت! کتاب خدا کی ذمہ داری جو تمہارے کاندھوں پر رکھی گئی ہے اس کے بارے میں خدائے عزوجل کی تقوی کی رعایت کرو،

اس لیے کہ اس کے متعلق مجھ سے بھی سوال کیا جائے گا اور تم لوگوں سے بھی پوچھا جائے گا

 مجھ سے تبلیغ رسالت کے بارے میں پوچھا جائے گا

 اور تم لوگوں سے کتاب پروردگار اور میری سنت کے بارے میں سوال ہوگا کہ جس کی ذمہ داری کو تم نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔

"اصول کافی، ج 2،ص606"

 

قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ :

إِنَّ أَحَقَّ اَلنَّاسِ بِالتَّخَشُّعِ فِی اَلسِّرِّ وَ اَلْعَلاَنِیَةِ لَحَامِلُ اَلْقُرْآنِ وَ إِنَّ أَحَقَّ اَلنَّاسِ فِی اَلسِّرِّ وَ اَلْعَلاَنِیَةِ بِالصَّلاَةِ وَ اَلصَّوْمِ لَحَامِلُ اَلْقُرْآنِ ثُمَّ نَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ یَا حَامِلَ اَلْقُرْآنِ تَوَاضَعْ بِهِ یَرْفَعْکَ اَللَّهُ وَ لاَ تَعَزَّزْ بِهِ فَیُذِلَّکَ اَللَّهُ یَا حَامِلَ اَلْقُرْآنِ تَزَیَّنْ بِهِ لِلَّهِ یُزَیِّنْکَ اَللَّهُ بِهِ وَ لاَ تَزَیَّنْ بِهِ لِلنَّاسِ فَیَشِینَکَ اَللَّهُ بِهِ۔

 

امام صادق علیہ السلام نے اپنے جد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے :

پوشیدہ اور کھلم کھلا طور پر اللہ تعالی کے خوف و خشوع کے لائق اہل قرآن ہیں  اور یقینا پوشیدہ علانیہ طور پر نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کے سزاوار اہل قرآن ہیں،

اس کے بعد بلند آواز سے فرمایا: 

اے اہل قرآن اس قرآن کے ذریعہ تواضع و انکساری کرو تاکہ اللہ تعالی تمہیں بلند کر دے اور عزت دے،

اور قرآن کے ذریعہ تکبر و غرور نہ کرو کہ اللہ تمہیں ذلیل و خوار کر دے گا،

اے حاملین قرآن خدا کے لئے اپنے کو اس سے زینت دو تاکہ تمہارا پروردگار تم کو اس سے آراستہ کرے

اور لوگوں کے لئے اپنے کو قرآن سے آراستہ نہ کروکہ خدا اس کے ذریعہ تمہیں معیوب و برا بنادے ۔   

"اصول کافی،  ج 2، ص604"


 

ماہ رمضان کو "قرآن کی بہار" کیوں کہا جاتا ہے؟

یہ تفصیل امام محمد باقر علیہ السلام کی ایک روایت سے لی گئی ہے جو  امام  فرماتے ہیں۔


لِکُلِّ شَیْ‏ءٍ رَبِیعٌ وَ رَبِیعُ الْقُرْآنِ شَهْرُ رَمَضَانَ...کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، تهران، دار الکتب الإسلامیة‌، ۱۴۰۷ ه‍ ق‌، ج‏۲، ص ۶۳۰.

ہر چیز کے لیے بہار ہے اور قرآن کی بہار رمضان کا مہینہ ہے۔ 

رمضان کا مہینہ قرآن کے نزول کا مہینہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

شَهْرُ رَمَضانَ الَّذی أُنْزِلَ فیهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَ بَیِّناتٍ مِنَ الْهُدى‏ وَ الْفُرْقان....  بقره(۲) آیه ۱۸۵

رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ایسے دلائل پر مشتمل ہے جو ہدایت اور(حق و باطل میں)امتیاز کرنے والے ہیں.

جس طرح بہار کا موسم فطرت کی نشوونما اور اس کے احیاء کا موسم ہے، اسی طرح رمضان کے مہینے میں قرآن کا نزول بھی روح انسانی کی حیات ہے۔  جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا اسْتَجیبُوا لِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ إِذا دَعاکُمْ لِما یُحْییکُمْ..  أنفال(۸) آیه ۲۴

اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائیں.

 

قرآن دلوں کی بہار

اور اسی لیے احادیث میں قرآن کریم کو "دلوں کی بہار" کہا گیا ہے۔..

نہج البلاغہ کے خطبہ 110 میں ہم پڑھتے ہیں:وَ تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ أَحْسَنُ الْحَدِیثِ وَ تَفَقَّهُوا فِیهِ فَإِنَّهُ رَبِیعُ الْقُلُوب‏..

 اور قرآن سیکھو جو کہ بہترین کلام ہے اور اس میں خیال کرو کہ یہ دلوں کی بہار ہے۔رمضان کے مقدس مہینے میں قرآن کا نزول اس خصوصی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے جس سے اس مہینے کو فائدہ ہوتا ہے، اس لیے اس مہینے میں قرآن کی مقدس کتاب نازل ہوتی ہے۔  جیسا کہ دیگر مقدس کتابیں بھی اسی ماہ رمضان میں نازل ہوئیں.

 

قرآن کریم کے تیرسٹھویں سورے کا نام «منافقون» ہے جو قرآن کے اٹھائسویں پارے میں موجود ہے. یہ مدنی سورہ ترتیب نزول کے حوالے سے ایک سو پانچواں سورہ ہے جو قلب رسول گرامی(ص) پر اترا ہے۔

 

«منافقون» کلمه «منافق» کا جمع ہے اور منافق وہ ہے جو اندر سے کافر ہے مگر مسلمانی کا دعوی کرتا ہے۔

 

اس سورے میں منافقین کی خصوصیات اور رفتار بارے بات ہوتی ہے اور یہ کہ مسلمان کا کسقدر سخت دشمن ہے۔ یہ سورہ رسول اللہ (ص) کو حکم دیتا ہے کہ مناقین کی سازشوں سے خبردار رہے اور مومنین کو بخشش اور دوگانہ رفتار سے دوری کی تلقین کرتا ہے.

 

اس سورہ میں انکے حقیقی چہرے کو واضح کیا جاتا ہے اور واضح کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ خدا کی رحمت اور بخشش سے دور ہوتے ہیں اور خدا کی یاد سے دنیاوی زرق و برق اور مال و اموال کی وجہ سے غافل ہوتے ہیں۔

 

 

منافقین کا مسئله بہت اہم ہے کہ ان کی وجہ سے مسلمانوں میں گروپ بندی ہوتی ہے لہذا اس سورے میں انکی خصوصیات اور پہچان کے ساتھ ان سے دوری کی تاکید کی جاتی ہے۔

 

بعض خصوصیات کچھ یوں ہیں:

 

پہلی نشانی دو گانہ پن ہے یعنی زبان سے ایمان کا اظھار کرتا ہے مگر دل میں ایمان نہیں رکھتے،

 

دوسری نشانی یہ ہے کہ اپنی باتوں پر قسم کھاتا ہے اور اس کا مقصد اہداف تک پہنچنا ہوتا ہے مگر اس سے وہ لوگوں کو حقیقت سے دور رکھنا چاہتا ہے۔

 

انکا ظاہر آراستہ اور دلچسپ اور باتیں میٹھی ہوتی ہیں تاہم انکا باطن اور روح خالی اور بے معنی ہوتی ہے استقلال سے عاری ہوتا ہے فیصلے کی طاقت سے خالی ہوتا ہے۔

 

منافقین ان لکڑیوں کی طرح ہوتے ہیں جو دیوار پر تکیہ لگاتے ہیں. خوف اور ڈر ان پر غالب رہتا ہےاور ہمیشہ مختلف امور میں شک اور بدگمانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔