التبیان کرگل لداخ

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

التبیان کرگل لداخ

وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِینَ

۱۴ مطلب در مارس ۲۰۲۳ ثبت شده است

اهل قرآن کی فضیلت:

1- اہل قرآن کا مرتبہ

 

قال الله تعالی : یَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَالَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ "سوره مجادله آیه 11"

خدا اہل ایمان اور جن کو علم دیا گیا ہے ان کے درجات کو بلند کرنا چاہتا ہے ..

 

- علم اور صاحبان علم کو اسلامی معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل ہونا چاہیے.- ایک سائنسدان کا عمل زیادہ ثواب کا کام ہے۔ «یرفع اللّه... الّذین اوتوا العلم درجات»

- جگہ دینا اور اٹھنا ،خلوص اور خدا کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ دوسرے مقاصد کے لیے - بیٹھنے اور کھڑے ہونے میں خدا کو نہ بھولیں۔«واللّه بما تعملون خبیر» "تفسیر النور- سوره مجادله آیه 11"


 

قالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ إِنَّ أَهْلَ اَلْقُرْآنِ فِی أَعْلَى دَرَجَةٍ مِنَ اَلْآدَمِیِّینَ مَا خَلاَ اَلنَّبِیِّینَ وَ اَلْمُرْسَلِینَ فَلاَ تَسْتَضْعِفُوا أَهْلَ اَلْقُرْآنِ حُقُوقَهُمْ فَإِنَّ لَهُمْ مِنَ اَللَّهِ اَلْعَزِیزِ اَلْجَبَّارِ لَمَکَاناً عَلِیّاً . "الکافی  ,  جلد۲  ,  صفحه۶۰۳ "

بیشک اہل قرآن انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے علاوہ تمام لوگوں سے بلند و اونچے درجہ  سے فائز ہوں گے، لہٰذا اہل قرآن کے حقوق کو ضائع نہ کرو کیونکہ اللہ تعالٰی کے نزدیک ان کا مرتبہ و مقام بہت بلند ہے۔

 

قالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ : حَمَلَةُ الْقُرْآنِ هُمُ المُعَلِّمُونَ کلامَ اللّه ِ وَ الْمُتَلَبِّسُونَ بِنُورِ اللّه ِ. مَنْ والاهُمْ فَقَدْ والَى اللّه َ، مَنْ عاداهُمْ فَقَدْ عادَى اللّه َ. کنزالعمال، ج 1، ص 523، ح 2345.

حاملین قرآن، اللہ کی رحمت سے مخصوص ہیں اور نور خدا کو زیب تن کئے ہوئے ہیں وہ لوگ کلام پروردگار کے معلم اور اس کے نزدیک مقرب ہیں، جو شخص انہیں دوست رکھتا ہے وہ اللہ کو دوست رکھتا ہے اور جو ان کو دشمن رکھتا ہے وہ خدا کا دشمن ہے۔


قَال الامام علی علیهم الالسلام : أَمَّا اللَّیْلَ فَصَافُّونَ أَقْدَامَهُمْ، تَالِینَ لِأَجْزَاءِ الْقُرْآنِ یُرَتِّلُونَهَا تَرْتِیلًا، نهج البلاغه- خ 193

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں مگر اہل تقویٰ راتوں کے وقت اپنے مصلی پر نماز کے لئے کھڑے رہتے ہیں اور قرآن کی آیتوں کو ترتیل کے ساتھ یعنی ٹھہر ٹھہر کر اور تدبر کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں۔

 

قَال الامام صادق علیهم الالسلام : اَلْحَافِظُ لِلْقُرْآنِ وَ اَلْعَامِلُ بِهِ مَعَ اَلسَّفَرَةِ اَلْکِرَامِ اَلْبَرَرَةِ .  ثواب الأعمال و عقاب الأعمال  ,  جلد۱  ,  صفحه۱۰۱  

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جو شخص حافظ قرآن ہے  اور اس پر عمل کر رہا ہے وہ اللہ کے محترم نیک کردار سفیروں کے ساتھ ہوگا۔

 

قَال الامام صادق علیهم الالسلام : اَلنَّاسُ أَرْبَعَةٌ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاکَ وَ مَا هُمْ فَقَالَ رَجُلٌ أُوتِیَ اَلْإِیمَانَ وَ لَمْ یُؤْتَ اَلْقُرْآنَ وَ رَجُلٌ أُوتِیَ اَلْقُرْآنَ وَ لَمْ یُؤْتَ اَلْإِیمَانَ وَ رَجُلٌ أُوتِیَ اَلْقُرْآنَ وَ أُوتِیَ اَلْإِیمَانَ وَ رَجُلٌ لَمْ یُؤْتَ اَلْقُرْآنَ وَ لاَ اَلْإِیمَانَ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاکَ فَسِّرْ لِی حَالَهُمْ فَقَالَ أَمَّا اَلَّذِی أُوتِیَ اَلْإِیمَانَ وَ لَمْ یُؤْتَ اَلْقُرْآنَ فَمَثَلُهُ کَمَثَلِ اَلتَّمْرَةِ طَعْمُهَا حُلْوٌ وَ لاَ رِیحَ لَهَا وَ أَمَّا اَلَّذِی أُوتِیَ اَلْقُرْآنَ وَ لَمْ یُؤْتَ اَلْإِیمَانَ فَمَثَلُهُ کَمَثَلِ اَلْآسِ رِیحُهَا طَیِّبٌ وَ طَعْمُهَا مُرٌّ وَ أَمَّا مَنْ أُوتِیَ اَلْقُرْآنَ وَ اَلْإِیمَانَ فَمَثَلُهُ کَمَثَلِ اَلْأُتْرُجَّةِ رِیحُهَا طَیِّبٌ وَ طَعْمُهَا طَیِّبٌ وَ أَمَّا اَلَّذِی لَمْ یُؤْتَ اَلْإِیمَانَ وَ لاَ اَلْقُرْآنَ فَمَثَلُهُ کَمَثَلِ اَلْحَنْظَلَةِ طَعْمُهَا مُرٌّ وَ لاَ رِیحَ لَهَا . الکافی  ,  جلد۲  ,  صفحه۶۰۴ 

لوگ چار قسم کے ہیں ایک قسم وہ ہے :

پهلی قسم  وه ہے جو صاحبان ایمان ہیں مگر اہل قرآن نہیں ہے کھجور کی طرح ہیں جس میں مٹھاس تو ہے مگر خوشبو نہیں ہے

 دوسری وہ قسم ہے جن کو قرآن عطا کیا گیا مگر اہل ایمان نہیں ہیں ان کی مثال اس مانند کے مانند ہے جس کی خوشبو اچھی ہے مگر اس کا ذائقہ کڑوا ہے۔

تیسری قسم ان لوگوں کے ہے جن کو قرآن بھی عطا کیا گیا اور اہل ایمان بھی ہیں،  ان کی مثال ترنج ومالٹے جیسی ہے جس کا ذائقہ بھی اچھا ہے اور اس کی خوشبو بھی اچھی ہے،

 چوتھی قسم ان لوگوں کی ہیں جن کو نہ قرآن دیا گیا ہے اور نہ اہل ایمان ہیں ان کی مثال حنظلل جیسی ہیں ہیں جس کا ذائقہ کڑوا اور خوشبو بھی نہیں پائی جاتی ہے …

 

قَال الامام صادق علیهم الالسلام : مَنْ قَرَأَ اَلْقُرْآنَ وَ هُوَ شَابٌّ مُؤْمِنٌ اِخْتَلَطَ اَلْقُرْآنُ بِلَحْمِهِ وَ دَمِهِ وَ جَعَلَهُ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مَعَ اَلسَّفَرَةِ اَلْکِرَامِ اَلْبَرَرَةِ وَ کَانَ اَلْقُرْآنُ حَجِیزاً عَنْهُ یَوْمَ اَلْقِیَامَةِ ..   الکافی  ,  جلد۲  ,  صفحه۶۰۳ 

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جو شخص جوانی کے عالم میں قرآن کی تلاوت کرے، اس نے اپنے گوشت اور خون سے قرآن کو مخلوط کر لیا ہے،  خداوند عالم اسے محترم نیک کردار سفیروں کے ساتھ قرار دے گا اور قرآن کو قیامت کے دن اس جوان کے لئے جہنم کی آگ  سے سپرد قرار دے گا..

 

 التبیان کرگل https://attibyaankargil.blog.ir

 

 قرآن کی فضیلت 

2- قرآن کریم بیماریوں کا علاج:

ا- وَنُنَزِّلُ مِنَ ٱلۡقُرۡءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٞ وَرَحۡمَةٞ لِّلۡمُؤۡمِنِینَۙ وَلَا یَزِیدُ ٱلظَّـٰلِمِینَ إِلَّا خَسَارٗا "سوره اسرا آیه ٨٢"

اور ہم قرآن میں سے ایسی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنین کے لیے تو شفا اور رحمت ہے لیکن ظالموں کے لیے تو صرف خسارے میں اضافہ کرتی ہے

"شِفَاءٌ"کیونکہ قرآن خدا کی طرف سے ہے جو انسان اور اس کی فطرت کا خالق ہے، اس کے قوانین بھی اس کی فطرت اور اس کے نجات دہندہ کے مطابق ہیں۔


ب- قال رسول الله ص: فَإِذَا الْتَبَسَتْ عَلَیْکُمُ الْفِتَنُ کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ فَعَلَیْکُمْ بِالْقُرْآنِ» الکافی (ط - الإسلامیة)، ج‏۲، ص: ۵۹۸ وسائل الشیعة، ج‏۶، ص: ۱۷۱ بحار الأنوار (ط - بیروت)، ج‏۷۴، ص: ۱۳۴

رسول خدا  ص فرماتے ہیں:  جب بھی فتنے آپ کو اندھیری رات کے حصوں کی طرح شک میں مبتلا کریں تو قرآن کی طرف رجوع کریں،

یعنی فتنہ کا مطلب وہ ہے جو انسان کو بے چین، بے یقینی اور جاہل بنا دے اور انسان کی روح، دماغ اور جسم پر دباؤ ڈالے۔

ج-   الإمامُ علیٌّ علیه السلام : فَاسْتَشْفُوهُ مِنْ أَدْوَائِکُمْ وَ اسْتَعِینُوا بِهِ عَلَى لَأْوَائِکُمْ، فَإِنَّ فِیهِ شِفَاءً مِنْ أَکْبَرِ الدَّاءِ وَ هُوَ الْکُفْرُ وَ النِّفَاقُ وَ الْغَیُّ وَ الضَّلَالُ.

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:  "نهج البلاغه ، خطبه 176 "اپنے دردوں،بیماریوں کا علاج قرآن سے تلاش کرو اور اپنی پریشانیوں میں قرآن سے مدد لو کیونکہ قرآن سب سے بڑی بیماری کا علاج ہے (وہ بیماری) جو کفر، نفاق، بغاوت اور گمراہی ہے.

د- قرآن کی دوا کوئی نقصان نہیں پہنچاتی:

قرآنی استدلال فکری جمود mental retardation))کو دور کرتا ہے۔

قرآن کی تبلیغ ظلم کا علاج کرتی ہے۔

  قرآن کی تاریخ الجھنوں کو دور کرتی ہے۔

  قرآن کی خوبصورت موسیقی اور  فصاحت و بلاغت مفرور (فرار) روح کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

  اس کے اصول و ضوابط توہم پرستانہ ،وسواس عادات کو ختم کرتے ہیں۔ 

اس کی تلاوت اور اس پر غور و فکر کرنے سے غفلت کی بیماری سے شفا ملتی ہے۔

اس کی برکت سے جسمانی بیماریاں دور ہوتی ہیں اور اس کی ہدایت سے اندھیرے روشن ہوتے ہیں۔

قرآن کی شفا میں مادی ادویات کی شفا کے ساتھ بہت سے اختلافات ہیں۔

  قرآن کی دوا کوئی نقصان نہیں پہنچاتی،

پرانی نہیں ہوتی اور اس کی کوئی میعاد ختم نہیں ہوتی۔

  قرآن کی شفاء دوسروں کی شفاء کا باعث بنتی ہے۔ 

قرآن مجید کے شفاء کے نسخے میں کوئی غلطی نہیں ہے، یہ ہمیشہ سب کے لیے دستیاب ہے، اس دوا کا ڈاکٹر ہمیں جانتا ہے، ہم سے محبت کرتا ہے، اور اس کے نسخے کا نتیجہ ابدی ہے، اس کا نسخہ اور دوا ایک جیسی نہیں ہے۔"تفسیر النور- سوره اسراء أیه ٨٢"

 

قرآن کی فضیلت  

1-قرآن کی لافانی اور تازگی 

قال الله تعالی : تَبَارَکَ ٱلَّذِی نَزَّلَ ٱلۡفُرۡقَانَ عَلَىٰ عَبۡدِهِۦ لِیَکُونَ لِلۡعَٰلَمِینَ نَذِیرًا "سورہ فرقان آیہ 1"

بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا ہے تاکہ وہ سارے عالمین کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا بن جائے۔

فضیلت قرآن

  الإمامُ الصّادقُ علیه السلام ـ لمّا سُئلَ : ما بالُ القرآنِ لا یَزدادُ علَى النَّشرِ والدَّرسِ إلّا غَضاضَةً؟ ـ : لأنَّ اللّه َ تبارکَ وتعالى لم یَجعَلْهُ لِزمانٍ دونَ زَمانٍ ، ولا لِناسٍ دونَ ناسٍ ، فهُو فی کلِّ زَمانٍ جَدیدٌ ، وعِند کُلِّ قَومٍ غَضٌّ إلى یَومِ القِیامَةِ۔ بحارالانوار،ج٢،ص٢٨٠، 

امام صادق علیہ السلام - جب ان سے پوچھا گیا: اس میں کیا راز ہے کہ جتنا زیادہ قرآن پڑھا اور اس پر بحث کی جائے، اتنی ہی اس کی تازگی بڑھتی ہے؟ فرمایا: کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ( قرآن)صرف ایک خاص وقت اور خاص لوگوں کے لیے نہیں بنایا ہے۔ اس لیے یہ قیامت تک کسی بھی وقت اور کسی بھی قوم کے لیے تازہ اور تروتازہ ہے۔ 

 

وقیل لجعفر بن محمد الصادق: لم صار الشعر والخطب یمل ما أعید منها، والقرآن لا یمل؟ فقال:لأن القرآن حجة على أهل الدهر الثانی، کما هو حجة على أهل الدهر الأول، فکل طائفة تتلقاه غضا جدیدا ولأن کل امرئ فی نفسه متى أعاده وفکر فیه تلقى منه فی کل مرة علوما غضة، ولیس هذا کله فی الشعر والخطب. کشف الاسرار،ج٣، ص٧٠، 

 

امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا: کہ شعر، شاعری اور تقریر دہرائے جانے سے کیوں تھک جاتے ہیں اور قرآن دہرانے سے کبھی نہیں تھکتا؟ فرمایا: کیونکہ قرآن دوسرے دور کے لوگوں پر اسی طرح حجت ہے جس طرح پہلے دور کے لوگوں پر حجت ہے۔ ہر فرقہ کو نئی تازگی ملتی ہے، کیونکہ ہر وہ شخص جو قرآن کو اپنے نفس اور روح میں دہرائے اور زندگی بھر اس پر غور و فکر کرتا ہے، وہ قرآن سے علوم اور نئے علوم تک پہنچتا ہے اور شاعری اور تقریروں میں ایسا نہیں ہوتا۔