☆ قرآن کی فضیلت ☆
1-قرآن کی لافانی اور تازگی
قال الله تعالی : تَبَارَکَ ٱلَّذِی نَزَّلَ ٱلۡفُرۡقَانَ عَلَىٰ عَبۡدِهِۦ لِیَکُونَ لِلۡعَٰلَمِینَ نَذِیرًا "سورہ فرقان آیہ 1"
بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا ہے تاکہ وہ سارے عالمین کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا بن جائے۔
الإمامُ الصّادقُ علیه السلام ـ لمّا سُئلَ : ما بالُ القرآنِ لا یَزدادُ علَى النَّشرِ والدَّرسِ إلّا غَضاضَةً؟ ـ : لأنَّ اللّه َ تبارکَ وتعالى لم یَجعَلْهُ لِزمانٍ دونَ زَمانٍ ، ولا لِناسٍ دونَ ناسٍ ، فهُو فی کلِّ زَمانٍ جَدیدٌ ، وعِند کُلِّ قَومٍ غَضٌّ إلى یَومِ القِیامَةِ۔ بحارالانوار،ج٢،ص٢٨٠،
امام صادق علیہ السلام - جب ان سے پوچھا گیا: اس میں کیا راز ہے کہ جتنا زیادہ قرآن پڑھا اور اس پر بحث کی جائے، اتنی ہی اس کی تازگی بڑھتی ہے؟ فرمایا: کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ( قرآن)صرف ایک خاص وقت اور خاص لوگوں کے لیے نہیں بنایا ہے۔ اس لیے یہ قیامت تک کسی بھی وقت اور کسی بھی قوم کے لیے تازہ اور تروتازہ ہے۔
وقیل لجعفر بن محمد الصادق: لم صار الشعر والخطب یمل ما أعید منها، والقرآن لا یمل؟ فقال:لأن القرآن حجة على أهل الدهر الثانی، کما هو حجة على أهل الدهر الأول، فکل طائفة تتلقاه غضا جدیدا ولأن کل امرئ فی نفسه متى أعاده وفکر فیه تلقى منه فی کل مرة علوما غضة، ولیس هذا کله فی الشعر والخطب. کشف الاسرار،ج٣، ص٧٠،
امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا: کہ شعر، شاعری اور تقریر دہرائے جانے سے کیوں تھک جاتے ہیں اور قرآن دہرانے سے کبھی نہیں تھکتا؟ فرمایا: کیونکہ قرآن دوسرے دور کے لوگوں پر اسی طرح حجت ہے جس طرح پہلے دور کے لوگوں پر حجت ہے۔ ہر فرقہ کو نئی تازگی ملتی ہے، کیونکہ ہر وہ شخص جو قرآن کو اپنے نفس اور روح میں دہرائے اور زندگی بھر اس پر غور و فکر کرتا ہے، وہ قرآن سے علوم اور نئے علوم تک پہنچتا ہے اور شاعری اور تقریروں میں ایسا نہیں ہوتا۔