التبیان کرگل لداخ

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

التبیان کرگل لداخ

وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِینَ

۲ مطلب در سپتامبر ۲۰۲۳ ثبت شده است

3- معلم قرآن کی عظیم ذمہ داری 

قرآن کریم:  ﴿ یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیراً،﴾ سوره احزاب / ۴۵

ترجمه:  اے پیغمبر ! ہم نے آپ کو گواہ، بشارت دینے والا، عذاب الہی سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

 

 قَالَ رَسُولُ اَللَّه ﴿ إنَّ أوَّلَ النَّاسِ یُقضَى عَلَیهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ رَجُلٌ استُشهِدَ فَأتِىَ ... وَرَجُلٌ تَعْلَمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأَتِیَ بِهِ فَعَرَفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِیهَا؟ قَالَ: تَعلَمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُهُ وَقَرَآتُ فِیکَ الْقُرْآنَ قَالَ: کَذَبْتَ وَلَکِنَّکَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِیُقَالَ عَلاِمُ وَقَرَأتَ القُرآنَ لَیُقَالَ هُوَ قَارِئُ فَقَدْ قِیلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أَلقِیَ فِی النَّارِ  ﴾ الجامع لاحکام القرآن، ج ۱، ص ۱۸

ترجمه: سب سے پہلے جس شخص کو قیامت کے دن حساب و کتاب کے لئے لایا جائے گا وہ ایسا انسان ہو گا کہ راہ خدا میں درجہ شہادت پر فائز ہوا ہے ...

پھر اس آدمی کو لایا جائے گا جس نے قرآن کو سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور قرآن کی تلاوت کی ہے۔ خدائے متعال اس کی نعمتوں کو اس کے سامنے گنوائے گاوہ اسے قبول کرے گا، اس کے بعد اللہ پوچھے گا تم نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟۔

وہ جواب دے گا: میں نے علم کو سیکھا، اس کو دوسروں کو سکھایا اور قرآن کی تلاوت کی ہے ۔

پروردگار کہے گا: تم جھوٹ بول رہے ہو، تم نے علم حاصل کیا، تا کہ لوگ کہیں عالم انسان ہے ، تم نے قرآن کی قرآئت کی تاکہ لوگ کہیں : اچھا قاری ہے ؟؟۔ اسی طرح تھا بھی، پھر خداوند عالم حکم دے گا، اسے منھ کے بل کھنچتے ہوئے لے جا کر دوزخ کی آگ میں ڈال دو اور وہ دوزخ کی آگ میں ڈال دیا جائے گا۔

 

 قَالَ  الإمامُ عَلُی علیه السلام ﴿ اَنَّهُ أتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ وَاللهِ إنِّى لَأُحِبُّکَ لِلَّهِ فَقَالَ لَهُ لَکِنِّی أُبْغِضُکَ لِلَّهِ قَالَ وَ لِمَ قَالَ لِأَنَّکَ تَبْغِى عَلَى الْآذَانِ وَ تَأخُذُ عَلَى تَعْلِیمِ الْقُرْآنِ أَجْراً ﴾  الاستبصار فی ماختلف من الاخبار، ج ۳، ص ۶۵ .

ترجمه:  امام علی علیه السلام کے پاس ایک آدمی آیا اور کها :  خدا کی قسم میں آپ کو اللہ لئے دوست رکھتا ہوں، حضرت  علیه السلام نےفرمایا، لیکن میں تم کو دشمن رکھتا ہوں ، اس نے پوچھا کیوں ؟ حضرت علیه السلام نے فرمایا : اس لئے کہ تم نے اذان کو کمانے کا ذریعہ بنالیا ہے اور قرآن کو سکھانے کی اجرت لیتے ہو۔

1- قرآن کے معلم اور متعلم کی  برتری

1- قرآن کریم:  ﴿الرَّحْمَن عَلَّمَ القُرْآن  خدائے رحمان نے قرآن کی تعلیم دی ہے۔( سوره الرحمن،  1و2)

2-  پیامبراسلام ص : ﴿ خِیَارُکُم مَن تَعَلَّمَ القُرآنَ وَعَلَّمَهُ ﴾تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن کو سیکھیں اور دوسروں کو   سکھائیں۔ (و سائل الشیعه ، ج6، ص 167)

3-  پیامبراسلام ص: ﴿مَن عَلَّمَ آیَةً فِی کِتَابِ اللهِ تَعَالَى کَانَ لَهُ أَجرُهَا مَا تُلِبَت﴾  جو انسان قرآن کی کسی ایک آیت کی تعلیم دے گا تو جب تک اس آیت کی تلاوت ہوتی رہے گی اس کا اجر و ثواب اسے ملتار ہے گا۔(تفسیر البیان العصافی الکلام اللہ الوافی ، ج ۵، ص 194)

4-  پیامبراسلام ص:  ﴿مُعَلِّمُ الْقُرآنِ و مُتَعَلِّمُهُ یَسْتَغْفِرُ لَهُ کُلُّ شَیْءٍ حَتَّى الحُوتُ فِی البَحر﴾  قرآن کو سکھانے اور سیکھنے والے کے لئے ہر چیز طلب مغفرت کرتی ہے یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی اس کے لئے استغفار کرتی ہیں۔(تفسیر البیان العصافی الکلام اللہ الوافی ، ج ۵، ص 194)

5-  امام على علیہ السلام:  ﴿إنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَیَهُمُّ بِعَذَابِ أَهلِ الأَرضِ جَمِیعاً حَتَّى لا یُرُیدُ أَنْ یُحَاشِیَ مِنْهُمْ أَحَداً إِذَا عَمِلُوا بِالمَعَاصِی وَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ فَإذا نَظَرَ إِلَى الشِّیبِ نَاقِلِى أقدَامِهِم إِلَى الصَّلَواتِ وَالوِلدَانِ یَتَعَلَّمُونَ القُرآنَ رَحِمَهُمْ وَ آخَرَ عَنْهُمْ ذَلِک﴾ جب زمین والے گناہ کرتے ہیں اور برائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں تو بیشک خدائے عز و جل تمام اہل زمین پر عذاب کا ارادہ کرتا ہے اس حد تک کہ کسی کو اس عذاب سے الگ نہ کرے، پس جب وہ بوڑھوں کو دیکھتا ہے کہ مسجدوں کی طرف نماز کے لئے قدم بڑھاتے ہوئے جارہے ہیں اور بچوں کو دیکھتا ہے کہ وہ قرآن کو سیکھ رہے ہیں تو اہل نماز ضعیفوں اور قرآن سیکھنے والے بچوں کی وجہ سے لوگوں پر رحم کرتا ہے اور عذاب کو ان سے ٹال دیتا ہے۔ (بحار الانوار ، ج ۸۹، ص ۱۸۵)

6-   امام صادق  علیہ السلام : ﴿ یَنبَغِی لِلْمُؤْمِن أنْ لَا یَمُوتَ حَتَّى یَتَعَلَّمَ الْقُرْآن أَو یَکُونَ فِی تَعلِیمِهِ ﴾ مومن کے لئے سزاوار نہیں ہے

 

7- حضرت امام کا ظمعلیہ السلام  سے حفص نے نقل کیا: ﴿سَمِعْتُ مُوسَى بْنَ جَعْفَرِ علیہ السلام  یَقُولُ لِرَجُلٍ أَ تُحِبُّ الْبَقَاءَ فِی الدُّنْیَا فَقَالَ نَعَمْ فَقَالَ وَ لِمَ قَالَ لِقِرَاءَةِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فَسَکَتَ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ بَعْدَ سَاعَةٍ یَا حَفْصُ مَنْ مَاتَ مِنْ أَوْلِیَاتِنَا وَ شِیعَتِنَا وَ لَمْ یُحْسِنِ الْقُرْآنَ عَلَّمَ فِی قَبْرِهِ لِیَرْفَعَ اللَّهُ بِهِ مِنْ دَرَجَتِهِ فَإِنَّ دَرَجَاتِ الْجَنَّةِ عَلَى قَدْرِ آیَاتِ الْقُرْآنِ یُقَالُ لَهُ اقْرَأْ وَ ارْقَ فَیَقْرَأَ ثُمَّ یَرْقَى

ترجمه: حفص کہتے ہیں کہ میں نے حضرت موسی ابن جعفر علیہ السلام    ان سے سنا کہ ایک آدمی سے کہہ رہے تھے : کیا دنیا میں رہنا پسند کرتے ہو، اس نے عرض کیا : ہاں، آپ نے پوچھا: کس لئے ؟ اس نے کہا : قل ہو اللہ احد کی تلاوت کے لئے ، حضرت علیہ السلام   خاموش ہو گئے اور تھوڑی دیر کے بعد مجھ سے فرمایا : اے حفص ہمارے دوستوں اور شیعوں میں سے جو کوئی بھی مرجائے اور قرآن کو اچھی طرح پڑھنا نہ جانتا ہو تو اسے قبر میں قرآن کی تعلیم دی جائے گی تا کہ اللہ تعالٰی اس کے درجات کو بلند کرے کیونکہ جنت کے درجے قرآن کی آیتوں کے برابر ہیں، اس سے کہا جائے گا:پڑھو اور بلند درجہ پر جاؤ، پس وہ پڑھنے کا اور اوپر جائے گا۔ (اصول کافی ، ج ۲، ص ۶۰۶ )

8- حفص، امام کا ظم علیہ السلام   کے متعلق کہتے ہیں: ﴿فَمَا رَأَیْتُ أَحَداً أَشَدَّ خَوْفاً عَلَى نَفْسِهِ مِنْ مُوسَى بْن جَعْفَر علیہ السلام   وَلَا أرْجَى النَّاس وَکَانَتْ قِرَاءَتْهُ حُزْناً فَإذَا قَرَأَ فَکَأَنَّهُ یُخَاطِبُ إِنْسَاناً

ترجمه: حفص کہتے ہیں ،میں نے کسی  انسان کو حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام سے زیادہ خوف زدہ نہیں دیکھا اور ان سے زیادہ امیدوار بھی کسی کو نہیں دیکھا، وہ قرآن کو زنجیدہ و محزون اور گریہ کی حالت میں پڑھتے تھے اور جس وقت وہ قرآن کی تلاوت کرتے تھے ایسا لگتا تھا کہ کسی انسان سے بات کر رہے ہیں۔(اصول کافی ، ج ۲، ص ۶۰۶ )

9-  معصوم علیہ السلام   :﴿أَنَّ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرآنَ یُکْسَى یَوْمَ الْقِیَامَةِ حُلَتَیْنِ ثُمَّ یُقَالُ لَهُ: اقْرَأْ وَارقَا فَکُلَّمَا قَرَأ آیَةً صَعِدَ دَرَجَةً وَ یُکْسَى أَبْوَاهُ حُلَتَیْنِ إِنْ کَانَا مُؤْمِنَیْنِ، ثُمَّ یُقَالُ لَهُمَا: هَذَا لِمَا عَلَّمْتُمَاهُ الْقُرآنَ

ترجمه: بیشک جو شخص قرآن کو سیکھتا ہے، قیامت کے دن اسے دو جنتی لباس پہنائے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا پڑھو اور اوپر جاؤ ، پس جب بھی وہ آیت کی تلاوت کرے گا ایک درجہ بلندی پر جائے ۔ پھر اس کے ماں باپ کو بھی دو بہشتی لباس پہنائے جائیں گے، اس بعد ان سے کہا جائے گا کہ یہ مقام ومرتبہ جو تمہیں عطا کیا گیا ہے وہ اس لئے کہ تم نے اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم دی ہے۔ (ہدایتالامتهای احکام الائمۃ، ج ۳، ص ۶۵)