التبیان کرگل لداخ

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

التبیان کرگل لداخ

وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِینَ

۸ مطلب در نوامبر ۲۰۲۴ ثبت شده است

 

اَلَمۡ تَکُنۡ اٰیٰتِیۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَکُنۡتُمۡ بِہَا تُکَذِّبُوۡنَ﴿۱۰۵﴾

 کیا تم وہی نہیں ہو کہ جب میری آیات تمہیں سنائی جاتیں تو تم انہیں جھٹلاتے تھے؟

قَالُوۡا رَبَّنَا غَلَبَتۡ عَلَیۡنَا شِقۡوَتُنَا وَ کُنَّا قَوۡمًا ضَآلِّیۡنَ﴿۱۰۶﴾

 وہ کہیں گے: ہمارے رب! ہماری بدبختی ہم پر غالب آگئی تھی اور ہم گمراہ لوگ تھے۔

رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡہَا فَاِنۡ عُدۡنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوۡنَ﴿۱۰۷﴾

 اے ہمارے رب!ہمیں اس جگہ سے نکال دے، اگر ہم نے پھر وہی (جرائم) کیے تو ہم لوگ ظالم ہوں گے ۔

قَالَ اخۡسَـُٔوۡا فِیۡہَا وَ لَا تُکَلِّمُوۡنِ﴿۱۰۸﴾

 اللہ فرمائے گا: خوار ہو کر اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔

 

تفسیر آیات

۱۔ اَلَمۡ تَکُنۡ اٰیٰتِیۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ: ایک ایسا سوال جس میں ان کے جرائم کا پورا خاکہ موجود ہے اور آنے والے عذاب کا پورا نقشہ۔ وہ آیات الٰہی کی تکذیب کرتے ہیں۔

 

۲۔ اعترافی جواب ہے: ہماری شقاوت اور بدبختی ہم پر غالب آگئی تھی۔ ہمیں اعتراف ہے کہ ہم تجاوزکار ظالم تھے۔

 

بعض حضرات نے اسے اعتذاری جواب قرار دیا ہے کہ یہ تکذیبی عناصر (گویا اشعری مذہب کے مطابق) یہ عذر پیش کر رہے ہوں گے: اے اللہ! ہم نے تیری آیات کی تکذیب اس لیے کی کہ تو نے ازل میں یہی لکھ دیا تھا۔ تیرا فیصلہ غالب آگیا اور تکذیب ہو گئی۔ ہم نے اپنی خود مختاری سے تو نہیں کی۔ 

 (محاسن التاویل ۷: ۳۰۴)

 

صاحب محاسن التاویل کا جواب اشعری مذہب کے مطابق نہیں ہے اگرچہ اپنی جگہ درست ہے۔ جواب میں لکھتے ہیں:

 

(اول تو یہ نظریہ بذات خود باطل ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے ان کے حق میں وہ سعادت اور شقاوت ثبت فرمائی ہے جو یہ لوگ اپنے اختیار سے بجا لانے والے ہیں۔۔۔۔)

۳۔ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡہَا: آتش جہنم سے نکلنے کی خواہش کا اظہار ایک ناممکن امر کی درخواست ہے اور یہ وعدہ غلط اور جھوٹ ہے کہ ہم دوبارہ دنیا میں جا کر آیات الٰہی کی تکذیب کریں تو ہم سے بڑا ظالم کوئی نہ ہو گا۔

 

۴۔ قَالَ اخۡسَـُٔوۡا فِیۡہَا: جواب ملے گا: ذلت و خواری کے ساتھ اسی آتش میں پڑے رہو۔

 

۵۔ وَ لَا تُکَلِّمُوۡنِ: مجھ سے بات نہ کرو۔ ان ظالموں نے اللہ سے اس وقت بات نہیں کی جب اللہ ان سے فرما رہا تھا: 

ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ دار امتحان میں جن لوگوں نے اللہ سے بات نہیں کی اور نہ اللہ کی بات سنی انہیں دار جزا میں بات کرنے کی اجازت نہیں ملے گی۔

 

الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 5، صفحہ 411

دریافت

 

 

{ إِنَّ هَـٰذَا ٱلۡقُرۡءَانَ یَهۡدِی لِلَّتِی هِیَ أَقۡوَمُ وَیُبَشِّرُ ٱلۡمُؤۡمِنِینَ ٱلَّذِینَ یَعۡمَلُونَ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ أَنَّ لَهُمۡ أَجۡرࣰا کَبِیرࣰا }[سُورَةُ الإِسۡرَاءِ: ٩]

یہ قرآن یقینا اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھی ہے اور ان مومنین کو جو نیک اعمال بجا لاتے ہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔

 

جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کتاب عنایت فرمائی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنایا:

وَ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَـنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَلَّا تَتَّخِذُوۡا۔۔۔۔ (۱۷ اسراء: ۲)

اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس (کتاب) کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت قرار دیا۔۔۔۔

 

اسی طرح یہ قرآن بھی ذریعہ ہدایت ہے اور اس ہدایت سے فائدہ اٹھانے والوں کو یہ قرآن بشارت دیتا ہے۔ کامیابی کی بشارت، اجر عظیم کی بشارت۔

۱۔ اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ: یہ قرآن انسانیت کی ایک ایسی طریقت اور شریعت کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو اقوم الطرق ہے۔ تمام نظامہائے حیات و دستور ہائے زندگی میں جامع ترین اور مستحکم ترین نظام کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔ قرآن، امت قرآن کو جس منزل کی طرف لے جانا چاہتا ہے وہاَقۡوَمُ ہے۔

 

نہایت مضبوط بنیادوں پر استوار ہے یہ نظام حیات:

  • اَقۡوَمُ یعنی ایسا جامع نظام حیات ہے جس میں زندگی کا کوئی گوشہ نظر انداز نہیں کیا گیا

  • اَقۡوَمُ یعنی ایسا معتدل نظام زندگی ہے جو انسانی فطری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔

  • اَقۡوَمُ یعنی ایسا نظام حیات جو عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورا کرتا ہے۔

  • اَقۡوَمُ یعنی ہر عصر کے لیے قابل عمل نظام حیات ہے۔

  • اَقۡوَمُ یعنی دنیا و آخرت دونوں کے تقاضے پورا کرتا ہے۔

  • اَقۡوَمُ یعنی اس پر عمل کرنا آسان اور انسانی طاقت کی حدود میں ہے۔

  • اَقۡوَمُ یعنی اس نظام زندگی کی شقوں میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

  • اَقۡوَمُ یعنی اس نظام زندگی میں کوئی روحانی اور مادی پہلو تشنہ نہیں ہے۔

 

۲۔ وَ یُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ: ایک جامع نظام حیات فراہم ہونے کے بعد اس پر ایمان لانے کی نوبت آتی ہے۔ ایمان کے بعد دستور حیات پر عمل کی نوبت آتی ہے اور پھر عمل کرنے میں کامیاب ہونے والوں کے لیے بشارت ملنا ایک قدرتی بات ہے۔

اہم نکات

۱۔ قرآنی بشارت، اس کے نظام اقوم پر عمل کرنے والوں کے لیے ہے۔

الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 4، صفحہ 494

آیہ 11 👇👇👇👇

 

وَ یَدۡعُ الۡاِنۡسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَہٗ بِالۡخَیۡرِ ؕ وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ عَجُوۡلًا﴿۱۱﴾

اور انسان کو جس طرح خیر مانگنا چاہیے اسی انداز سے شر مانگتا ہے اور انسان بڑا جلد باز ہے۔

تفسیر آیات

مکہ والے حضورؐ سے بار بار یہ مطالبہ کرتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے رہتے ہو۔ اس طرح وہ رحمت خدا مانگنے کی بجائے عذاب خدا مانگتے ہیں۔ دوسرے فقرے میں اس حماقت کے پیچھے موجود محرک کا ذکر ہے۔ وہ ہے انسان کی عجلت پسندی۔ یہ خصلت انسان کو عزت کی جگہ ذلت، کامیابی کی جگہ ناکامی اور خیر کی بجائے شر کی طرف لے جاتی ہے۔ چنانچہ انسان کی بیشتر ناکامیوں کا سبب یہی عجلت پسندی ہے۔ عجلت پسندی کا مغلوب انسان زمینی حقائق کی جگہ ذہنی آرزوؤں پر چلتا ہے اور ناکام ہو جاتا ہے۔

 

سابقہ آیت کے ساتھ اس آیت کا ربط اس طرح ہے کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھی ہے اور اس پر چلنے والوں کو بشارت دیتا ہے لیکن یہ عجلت پسند انسان اللہ کی عطا کردہ اس خیر کی جگہ شر کی طلب میں نکلتا ہے اور اس قرآن سے ہدایت حاصل کر کے رحمت الٰہی کا منتظر رہنے کی جگہ جلد بازی سے کام لیتے ہوئے شر کے دامن میں پھنس جاتا ہے۔ اعاذنا اللّٰہ من ذلک۔

 

اہم نکات

۱۔ انسان نادانی میں اپنی مصلحت کے خلاف دعا کر بیٹھتا ہے۔

۲۔ عجلت پسندی سے ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔

                               الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 4، صفحہ 495

دریافت


دریافت

 

وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا﴿۷۴ فرقان)

اور جو دعا کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ہماری ازواج اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا دے۔

 

۱۔ مؤمن کی اور ایک صفت یہ ہے کہ وہ اپنے رب سے دو چیزیں مانگتے ہیں:

الف: ازواج و اولاد سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملے۔ ان سے خوشی اور مسرت حاصل رہے۔ ظاہر ہے مؤمن کو ان سے مسرت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب یہ اللہ کی اطاعت اور اللہ کی معصیت سے پرہیز کریں۔ واضح رہے صالح اولاد قیامت کے دن اپنے والدین کو فائدہ دے سکتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا:

جَنّٰتُ عَدۡنٍ یَّدۡخُلُوۡنَہَا وَ مَنۡ صَلَحَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ۔۔۔۔ (۱۳ رعد: ۲۳)

(یعنی) ایسی دائمی جنتیں ہیں جن میں وہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آبا بھی۔۔۔۔

 

ب: وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا: ہمیں پرہیز گاروں کا ہر اول دستہ بنا دے کہ ہم آنے والوں کے لیے تقویٰ کی مثال بن جائیں۔ جیسا کہ حکم ہے:

فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۱۴۸)

پس تم لوگ نیکیوں کی طرف سبقت کرو۔۔۔۔

احادیث 

اہل بیت علیہم السلام کی قرائت میں آیا ہے:

و اجعل لنا من المتقین اماماً۔                     (بحار الانوار ۲۴: ۱۳۲)

ہمارے لیے تقویٰ والوں میں رہنما بنا دے۔

 

ابو سعید راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اے جبرئیل اس آیت میں ازواجنا کون ہیں؟

 کہا: خدیجہ ہیں۔

 فرمایا: ذریاتنا کون ہیں؟ 

کہا: فاطمہ۔

 فرمایا: قرۃ العین کون ہیں؟

 فرمایا: حسن و حسین۔ فرمایا: 

واجعلنا للمتقین اماماً کون ہیں؟ 

فرمایا: علی ہیں۔           (شواہد التنزیل ۱:۵۳۹ ذیل آیت)

 

ابان بن تغلب سے روایت ہے۔ 

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا:

نحن ہم اھل البیت۔ 

یہ ہم اہل بیت ہیں۔          (شواہد التنزیل۱: ۵۳۹)

ابن عباس راوی ہیں: 

یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (البرہان ذیل آیت)

 

اہم نکات

۱۔ ازدواج و اولاد کی اچھی تربیت دارین کے لیے فائدہ مند ہے۔

۲۔ مؤمن کو چاہیے کہ وہ تقویٰ کے لیے مثال بن جائے۔               الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 6، صفحہ ۵۳


دریافت

 

ہمارے رب! ہم جس بوجھ کے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے وہ ہمارے سر پر نہ رکھ۔۔ سورہ بقرہ آیہ 286

 

انسان پر اس کی طاقت کے مطابق ذمے داری اور مسؤ لیت عائد ہو تی ہے۔ طاقت کا دائرہ جتنا وسیع ہو گا اسی مقدارمیں اس کی مسؤلیت بھی وسیع ہوتی جائے گی۔ چنانچہ کم عقل کی نسبت عاقل پر اور کم علم کی نسبت عالم پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔

 

جس بوجھ کے اٹھانے کی طاقت ہم نہیں رکھتے وہ ہمارے سر پر نہ رکھ۔ اس سے غیر ممکن اور محال مراد نہیں ہے۔ کیونکہ کوئی عاقل کسی دوسرے کو ناممکن چیزوں کا حکم نہیں دیتا بلکہ مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ سے مراد وہ پرمشقت امور ہیں جن سے انسان عام طورپر عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔

 

خطا اور نسیان کی صورت میں اللہ سے عفو، مغفرت اور رحم طلب کرنے کے ذکر کے بعد ارشاد ہوا: اَنۡتَ مَوۡلٰىنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ ’’تو ہی ہمارا مالک اور کارساز ہے، پس کفار کے مقابلے میں ہماری نصرت فرما۔‘‘ اس جملے میں لفظ مَولَا کا معنی واضح ہو جاتا ہے کہ مدد اور نصرت مَولاَ سے طلب کی جاتی ہے۔ یہاں انۡصُرۡنَا کو فائے تفریع کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ مَولاَ وہ ہے جو تصرف کا حق رکھتا ہو اور اسے ولایت و حاکمیت حاصل ہو۔

 

 


مدت زمان: 13 ثانیه

 

حکیمانہ جملے

قرآن کی عظمت ⬇️

۱- جو چیز ہم کو لازوال ایمان عطا کرتی ہے اور ہمارے دل کو مضبوط اور قدم کو ثبات عطا کرتی ہے وہ قرآن ہے۔

۲- قرآن، نور و معرفت اور اللہ سے تقرب کی کتاب ہے۔

۳۔ قرآن، اسلام کی بنیاد ، 

قرآن کے سایہ میں ہی انسان کی حیات میں شجاعت ، بصیرت اور معرفت کے معنی ظاہر ہوتے۔ہیں اور حقیقی زندگی کو وجود ملتا ہے۔

قرآن سے انس و لگاؤ کے ایجاد میں تلاوت اور تکرار کا کردار

قرآن کو شروع سے آخر تک پڑھنا ایک ضروری امر ہے

قرآن کو اوّل سے آخر تک پڑھنا چاہئے،

پھر اول سے آخر تک ، تاکہ تمام قرآنی معارف سے انسان کا ذہن مجموعی طور اکٹھا آشنا ہو جائے۔.