وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا﴿۷۴ فرقان)
اور جو دعا کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ہماری ازواج اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا دے۔
۱۔ مؤمن کی اور ایک صفت یہ ہے کہ وہ اپنے رب سے دو چیزیں مانگتے ہیں:
الف: ازواج و اولاد سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملے۔ ان سے خوشی اور مسرت حاصل رہے۔ ظاہر ہے مؤمن کو ان سے مسرت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب یہ اللہ کی اطاعت اور اللہ کی معصیت سے پرہیز کریں۔ واضح رہے صالح اولاد قیامت کے دن اپنے والدین کو فائدہ دے سکتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
جَنّٰتُ عَدۡنٍ یَّدۡخُلُوۡنَہَا وَ مَنۡ صَلَحَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ۔۔۔۔ (۱۳ رعد: ۲۳)
(یعنی) ایسی دائمی جنتیں ہیں جن میں وہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آبا بھی۔۔۔۔
ب: وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا: ہمیں پرہیز گاروں کا ہر اول دستہ بنا دے کہ ہم آنے والوں کے لیے تقویٰ کی مثال بن جائیں۔ جیسا کہ حکم ہے:
فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۱۴۸)
پس تم لوگ نیکیوں کی طرف سبقت کرو۔۔۔۔
احادیث
اہل بیت علیہم السلام کی قرائت میں آیا ہے:
و اجعل لنا من المتقین اماماً۔ (بحار الانوار ۲۴: ۱۳۲)
ہمارے لیے تقویٰ والوں میں رہنما بنا دے۔
ابو سعید راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اے جبرئیل اس آیت میں ازواجنا کون ہیں؟
کہا: خدیجہ ہیں۔
فرمایا: ذریاتنا کون ہیں؟
کہا: فاطمہ۔
فرمایا: قرۃ العین کون ہیں؟
فرمایا: حسن و حسین۔ فرمایا:
واجعلنا للمتقین اماماً کون ہیں؟
فرمایا: علی ہیں۔ (شواہد التنزیل ۱:۵۳۹ ذیل آیت)
ابان بن تغلب سے روایت ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا:
نحن ہم اھل البیت۔
یہ ہم اہل بیت ہیں۔ (شواہد التنزیل۱: ۵۳۹)
ابن عباس راوی ہیں:
یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (البرہان ذیل آیت)
اہم نکات
۱۔ ازدواج و اولاد کی اچھی تربیت دارین کے لیے فائدہ مند ہے۔
۲۔ مؤمن کو چاہیے کہ وہ تقویٰ کے لیے مثال بن جائے۔ الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 6، صفحہ ۵۳