التبیان کرگل لداخ

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

التبیان کرگل لداخ

وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِینَ

۴ مطلب با موضوع «مضامین و مقالات» ثبت شده است

3- معلم قرآن کی عظیم ذمہ داری 

قرآن کریم:  ﴿ یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیراً،﴾ سوره احزاب / ۴۵

ترجمه:  اے پیغمبر ! ہم نے آپ کو گواہ، بشارت دینے والا، عذاب الہی سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

 

 قَالَ رَسُولُ اَللَّه ﴿ إنَّ أوَّلَ النَّاسِ یُقضَى عَلَیهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ رَجُلٌ استُشهِدَ فَأتِىَ ... وَرَجُلٌ تَعْلَمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأَتِیَ بِهِ فَعَرَفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِیهَا؟ قَالَ: تَعلَمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُهُ وَقَرَآتُ فِیکَ الْقُرْآنَ قَالَ: کَذَبْتَ وَلَکِنَّکَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِیُقَالَ عَلاِمُ وَقَرَأتَ القُرآنَ لَیُقَالَ هُوَ قَارِئُ فَقَدْ قِیلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أَلقِیَ فِی النَّارِ  ﴾ الجامع لاحکام القرآن، ج ۱، ص ۱۸

ترجمه: سب سے پہلے جس شخص کو قیامت کے دن حساب و کتاب کے لئے لایا جائے گا وہ ایسا انسان ہو گا کہ راہ خدا میں درجہ شہادت پر فائز ہوا ہے ...

پھر اس آدمی کو لایا جائے گا جس نے قرآن کو سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور قرآن کی تلاوت کی ہے۔ خدائے متعال اس کی نعمتوں کو اس کے سامنے گنوائے گاوہ اسے قبول کرے گا، اس کے بعد اللہ پوچھے گا تم نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟۔

وہ جواب دے گا: میں نے علم کو سیکھا، اس کو دوسروں کو سکھایا اور قرآن کی تلاوت کی ہے ۔

پروردگار کہے گا: تم جھوٹ بول رہے ہو، تم نے علم حاصل کیا، تا کہ لوگ کہیں عالم انسان ہے ، تم نے قرآن کی قرآئت کی تاکہ لوگ کہیں : اچھا قاری ہے ؟؟۔ اسی طرح تھا بھی، پھر خداوند عالم حکم دے گا، اسے منھ کے بل کھنچتے ہوئے لے جا کر دوزخ کی آگ میں ڈال دو اور وہ دوزخ کی آگ میں ڈال دیا جائے گا۔

 

 قَالَ  الإمامُ عَلُی علیه السلام ﴿ اَنَّهُ أتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ وَاللهِ إنِّى لَأُحِبُّکَ لِلَّهِ فَقَالَ لَهُ لَکِنِّی أُبْغِضُکَ لِلَّهِ قَالَ وَ لِمَ قَالَ لِأَنَّکَ تَبْغِى عَلَى الْآذَانِ وَ تَأخُذُ عَلَى تَعْلِیمِ الْقُرْآنِ أَجْراً ﴾  الاستبصار فی ماختلف من الاخبار، ج ۳، ص ۶۵ .

ترجمه:  امام علی علیه السلام کے پاس ایک آدمی آیا اور کها :  خدا کی قسم میں آپ کو اللہ لئے دوست رکھتا ہوں، حضرت  علیه السلام نےفرمایا، لیکن میں تم کو دشمن رکھتا ہوں ، اس نے پوچھا کیوں ؟ حضرت علیه السلام نے فرمایا : اس لئے کہ تم نے اذان کو کمانے کا ذریعہ بنالیا ہے اور قرآن کو سکھانے کی اجرت لیتے ہو۔

1- قرآن کے معلم اور متعلم کی  برتری

1- قرآن کریم:  ﴿الرَّحْمَن عَلَّمَ القُرْآن  خدائے رحمان نے قرآن کی تعلیم دی ہے۔( سوره الرحمن،  1و2)

2-  پیامبراسلام ص : ﴿ خِیَارُکُم مَن تَعَلَّمَ القُرآنَ وَعَلَّمَهُ ﴾تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن کو سیکھیں اور دوسروں کو   سکھائیں۔ (و سائل الشیعه ، ج6، ص 167)

3-  پیامبراسلام ص: ﴿مَن عَلَّمَ آیَةً فِی کِتَابِ اللهِ تَعَالَى کَانَ لَهُ أَجرُهَا مَا تُلِبَت﴾  جو انسان قرآن کی کسی ایک آیت کی تعلیم دے گا تو جب تک اس آیت کی تلاوت ہوتی رہے گی اس کا اجر و ثواب اسے ملتار ہے گا۔(تفسیر البیان العصافی الکلام اللہ الوافی ، ج ۵، ص 194)

4-  پیامبراسلام ص:  ﴿مُعَلِّمُ الْقُرآنِ و مُتَعَلِّمُهُ یَسْتَغْفِرُ لَهُ کُلُّ شَیْءٍ حَتَّى الحُوتُ فِی البَحر﴾  قرآن کو سکھانے اور سیکھنے والے کے لئے ہر چیز طلب مغفرت کرتی ہے یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی اس کے لئے استغفار کرتی ہیں۔(تفسیر البیان العصافی الکلام اللہ الوافی ، ج ۵، ص 194)

5-  امام على علیہ السلام:  ﴿إنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَیَهُمُّ بِعَذَابِ أَهلِ الأَرضِ جَمِیعاً حَتَّى لا یُرُیدُ أَنْ یُحَاشِیَ مِنْهُمْ أَحَداً إِذَا عَمِلُوا بِالمَعَاصِی وَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ فَإذا نَظَرَ إِلَى الشِّیبِ نَاقِلِى أقدَامِهِم إِلَى الصَّلَواتِ وَالوِلدَانِ یَتَعَلَّمُونَ القُرآنَ رَحِمَهُمْ وَ آخَرَ عَنْهُمْ ذَلِک﴾ جب زمین والے گناہ کرتے ہیں اور برائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں تو بیشک خدائے عز و جل تمام اہل زمین پر عذاب کا ارادہ کرتا ہے اس حد تک کہ کسی کو اس عذاب سے الگ نہ کرے، پس جب وہ بوڑھوں کو دیکھتا ہے کہ مسجدوں کی طرف نماز کے لئے قدم بڑھاتے ہوئے جارہے ہیں اور بچوں کو دیکھتا ہے کہ وہ قرآن کو سیکھ رہے ہیں تو اہل نماز ضعیفوں اور قرآن سیکھنے والے بچوں کی وجہ سے لوگوں پر رحم کرتا ہے اور عذاب کو ان سے ٹال دیتا ہے۔ (بحار الانوار ، ج ۸۹، ص ۱۸۵)

6-   امام صادق  علیہ السلام : ﴿ یَنبَغِی لِلْمُؤْمِن أنْ لَا یَمُوتَ حَتَّى یَتَعَلَّمَ الْقُرْآن أَو یَکُونَ فِی تَعلِیمِهِ ﴾ مومن کے لئے سزاوار نہیں ہے

 

7- حضرت امام کا ظمعلیہ السلام  سے حفص نے نقل کیا: ﴿سَمِعْتُ مُوسَى بْنَ جَعْفَرِ علیہ السلام  یَقُولُ لِرَجُلٍ أَ تُحِبُّ الْبَقَاءَ فِی الدُّنْیَا فَقَالَ نَعَمْ فَقَالَ وَ لِمَ قَالَ لِقِرَاءَةِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فَسَکَتَ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ بَعْدَ سَاعَةٍ یَا حَفْصُ مَنْ مَاتَ مِنْ أَوْلِیَاتِنَا وَ شِیعَتِنَا وَ لَمْ یُحْسِنِ الْقُرْآنَ عَلَّمَ فِی قَبْرِهِ لِیَرْفَعَ اللَّهُ بِهِ مِنْ دَرَجَتِهِ فَإِنَّ دَرَجَاتِ الْجَنَّةِ عَلَى قَدْرِ آیَاتِ الْقُرْآنِ یُقَالُ لَهُ اقْرَأْ وَ ارْقَ فَیَقْرَأَ ثُمَّ یَرْقَى

ترجمه: حفص کہتے ہیں کہ میں نے حضرت موسی ابن جعفر علیہ السلام    ان سے سنا کہ ایک آدمی سے کہہ رہے تھے : کیا دنیا میں رہنا پسند کرتے ہو، اس نے عرض کیا : ہاں، آپ نے پوچھا: کس لئے ؟ اس نے کہا : قل ہو اللہ احد کی تلاوت کے لئے ، حضرت علیہ السلام   خاموش ہو گئے اور تھوڑی دیر کے بعد مجھ سے فرمایا : اے حفص ہمارے دوستوں اور شیعوں میں سے جو کوئی بھی مرجائے اور قرآن کو اچھی طرح پڑھنا نہ جانتا ہو تو اسے قبر میں قرآن کی تعلیم دی جائے گی تا کہ اللہ تعالٰی اس کے درجات کو بلند کرے کیونکہ جنت کے درجے قرآن کی آیتوں کے برابر ہیں، اس سے کہا جائے گا:پڑھو اور بلند درجہ پر جاؤ، پس وہ پڑھنے کا اور اوپر جائے گا۔ (اصول کافی ، ج ۲، ص ۶۰۶ )

8- حفص، امام کا ظم علیہ السلام   کے متعلق کہتے ہیں: ﴿فَمَا رَأَیْتُ أَحَداً أَشَدَّ خَوْفاً عَلَى نَفْسِهِ مِنْ مُوسَى بْن جَعْفَر علیہ السلام   وَلَا أرْجَى النَّاس وَکَانَتْ قِرَاءَتْهُ حُزْناً فَإذَا قَرَأَ فَکَأَنَّهُ یُخَاطِبُ إِنْسَاناً

ترجمه: حفص کہتے ہیں ،میں نے کسی  انسان کو حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام سے زیادہ خوف زدہ نہیں دیکھا اور ان سے زیادہ امیدوار بھی کسی کو نہیں دیکھا، وہ قرآن کو زنجیدہ و محزون اور گریہ کی حالت میں پڑھتے تھے اور جس وقت وہ قرآن کی تلاوت کرتے تھے ایسا لگتا تھا کہ کسی انسان سے بات کر رہے ہیں۔(اصول کافی ، ج ۲، ص ۶۰۶ )

9-  معصوم علیہ السلام   :﴿أَنَّ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرآنَ یُکْسَى یَوْمَ الْقِیَامَةِ حُلَتَیْنِ ثُمَّ یُقَالُ لَهُ: اقْرَأْ وَارقَا فَکُلَّمَا قَرَأ آیَةً صَعِدَ دَرَجَةً وَ یُکْسَى أَبْوَاهُ حُلَتَیْنِ إِنْ کَانَا مُؤْمِنَیْنِ، ثُمَّ یُقَالُ لَهُمَا: هَذَا لِمَا عَلَّمْتُمَاهُ الْقُرآنَ

ترجمه: بیشک جو شخص قرآن کو سیکھتا ہے، قیامت کے دن اسے دو جنتی لباس پہنائے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا پڑھو اور اوپر جاؤ ، پس جب بھی وہ آیت کی تلاوت کرے گا ایک درجہ بلندی پر جائے ۔ پھر اس کے ماں باپ کو بھی دو بہشتی لباس پہنائے جائیں گے، اس بعد ان سے کہا جائے گا کہ یہ مقام ومرتبہ جو تمہیں عطا کیا گیا ہے وہ اس لئے کہ تم نے اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم دی ہے۔ (ہدایتالامتهای احکام الائمۃ، ج ۳، ص ۶۵)

 

قرآن کریم کے تیرسٹھویں سورے کا نام «منافقون» ہے جو قرآن کے اٹھائسویں پارے میں موجود ہے. یہ مدنی سورہ ترتیب نزول کے حوالے سے ایک سو پانچواں سورہ ہے جو قلب رسول گرامی(ص) پر اترا ہے۔

 

«منافقون» کلمه «منافق» کا جمع ہے اور منافق وہ ہے جو اندر سے کافر ہے مگر مسلمانی کا دعوی کرتا ہے۔

 

اس سورے میں منافقین کی خصوصیات اور رفتار بارے بات ہوتی ہے اور یہ کہ مسلمان کا کسقدر سخت دشمن ہے۔ یہ سورہ رسول اللہ (ص) کو حکم دیتا ہے کہ مناقین کی سازشوں سے خبردار رہے اور مومنین کو بخشش اور دوگانہ رفتار سے دوری کی تلقین کرتا ہے.

 

اس سورہ میں انکے حقیقی چہرے کو واضح کیا جاتا ہے اور واضح کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ خدا کی رحمت اور بخشش سے دور ہوتے ہیں اور خدا کی یاد سے دنیاوی زرق و برق اور مال و اموال کی وجہ سے غافل ہوتے ہیں۔

 

 

منافقین کا مسئله بہت اہم ہے کہ ان کی وجہ سے مسلمانوں میں گروپ بندی ہوتی ہے لہذا اس سورے میں انکی خصوصیات اور پہچان کے ساتھ ان سے دوری کی تاکید کی جاتی ہے۔

 

بعض خصوصیات کچھ یوں ہیں:

 

پہلی نشانی دو گانہ پن ہے یعنی زبان سے ایمان کا اظھار کرتا ہے مگر دل میں ایمان نہیں رکھتے،

 

دوسری نشانی یہ ہے کہ اپنی باتوں پر قسم کھاتا ہے اور اس کا مقصد اہداف تک پہنچنا ہوتا ہے مگر اس سے وہ لوگوں کو حقیقت سے دور رکھنا چاہتا ہے۔

 

انکا ظاہر آراستہ اور دلچسپ اور باتیں میٹھی ہوتی ہیں تاہم انکا باطن اور روح خالی اور بے معنی ہوتی ہے استقلال سے عاری ہوتا ہے فیصلے کی طاقت سے خالی ہوتا ہے۔

 

منافقین ان لکڑیوں کی طرح ہوتے ہیں جو دیوار پر تکیہ لگاتے ہیں. خوف اور ڈر ان پر غالب رہتا ہےاور ہمیشہ مختلف امور میں شک اور بدگمانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔

 

قرآن کے بارے میں امام خمینی (ره)کے نظرئیے سے آگاہ ہونے کیلئے قرائت اور تلاوت کی طرف توجہ دینے سے متعلق آپ کی تاکیدات کو جاننا بہت اہم اور بنیادی ہے۔ قرآن کا گرویدہ شخص قرآن سے مانوس ہوجاتا ہے اور انس کی اس لذت کو دوسروں سے بھی بیان کرتا ہے۔ قرآن سے عشق و عقیدت اس بات کا موجب بنتی ہے کہ وہ مختلف طریقوں سے اس کو بیان کرے
امام خمینی (ره) تلاوت قرآن کی اہمیت کے بارے میں  لکھتے ہیں :
رسول اکرم  (ص)  کی وصیتوں  میں  سے ایک وصیت تلاوت قرآن مجید کے بارے میں  ہے اور اہل بیت عصمت وطہارت  (ع) نے اس بارے جو کچھ بیان فرمایا ہے اس سب کے اس کتاب میں  ذکر کئے جانے کی گنجائش نہیں  ہے۔ پھر آپ بعض روایات ذکر کرتے ہیں  اور قاریوں  کے درجات اور تلاوت کے ثواب کے بارے میں  لکھتے ہیں :
’’
بہت سی روایات میں  عمدہ صورت میں  قرآن کریم کے مجسم ہونے اور اس کا اپنے قاریوں  اور اہل کی شفاعت کرنے کا ذکر ہوا ہے۔۔۔ ایک حدیث میں  آیا ہے کہ جو صاحب ایمان جوانی میں  قرآن کی تلاوت کرتا ہے، قرآن اس کے گوشت اور خون میں  داخل ہوجاتا ہے اور خدا اس کو نیکوکاروں  کے دسترخوان پر بٹھائے گا اور وہ آخرت میں  قرآن کی پناہ میں  ہوگا‘‘۔(شرح چہل حدیث، ص ۴۹۷)
امام خمینی  (ره) اس کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کے معنوی اثرات اور قاری کے دل پر اس کی تاثیر کو بیان کرتے ہیں  اور اس کی تشریح اور تجزیہ کرتے ہیں ۔
امام خمینی  (ره) اس سلسلے میں  وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’
جو شخص خدا تعالیٰ کی تکوین وتدوین کی کتابوں  میں  موجود اسمائے الٰہی اور آیات کی تلاوت کا عادی ہوجاتا ہے اس کا دل دھیرے دھیرے آیت وذکر کا رنگ اپنا لیتا ہے اور اس کا باطن ذات ذکر اﷲ، اسم اﷲ اور آیت اﷲ بن جاتا ہے۔۔۔ مقام ذکر ایک ایسا عظیم مقام ہے جو زبان وقلم کے بیان سے  باہر ہے اور ایسے اہل معرفت اور جذبہ عشق ومحبت سے سرشار افراد کیلئے یہی آیت کافی ہے کہ جس میں  خدا تعالیٰ فرماتا ہے: { فاذکرونی أذکرکم } ‘‘ (بقرہ ؍ ۱۵۲) (آداب الصلاۃ، ص ۲۱۶)
قرآن کریم کی تلاوت کی تاثیر سے متعلق اس طرح کا عرفانی تجزیہ اور بیان صرف وہی افراد پیش کرسکتے ہیں  جو ایک طرف تو خود تلاوت قرآن کے عاشق ہوں  اور دوسری جانب اس کے مراتب ودرجات سے آگاہی رکھتے ہوں  اور مقام عمل میں  اپنے تجربے کے ساتھ ان کو حاصل کرچکے ہوں ۔
امام سجاد  (ع) کی روایت ہے کہ: ’’قرآن ایک ایسا خزانہ ہے کہ جس کا جو حصہ بھی کھل جائے وہی قابل دید اور لذت بخش ہے‘‘۔(اصول کافی، ج ۲، ص ۶۰۹، کتاب فضل القرآن)
ایک اور روایت میں  آپ  (ع) تلاوت وتدبر کے درجات ومراتب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں  کہ:
 ’’اگر کوئی رات کو دس آیات تلاوت کرتا ہے تو وہ غافلین میں  سے نہیں  ہوگا اور اگر کوئی پچاس آیات کی تلاوت کرتا ہے تو وہ ذکر کرنے والوں  میں  سے ہوگا اور اگر کوئی دو سو آیات کی تلاوت کرتا ہے تو وہ خاشعین میں  سے ہوگا‘‘۔(اصول کافی، ص ۶۱۲، ح ۵)
یہی وجہ ہے کہ جب امام خمینی  (ره(  ان دو احادیث کو کتاب ’’شرح چہل حدیث‘‘ میں  نقل کرتے ہیں  تو لکھتے ہیں  کہ: ’’ان دو احادیث کا ظاہر یہ ہے کہ آیات اور ان کے معانی میں  غور وفکر کرنا اچھا ہے‘‘۔(شرح چہل حدیث، ص ۴۹۷)
اس کے بعد آپ حضرت امام علی )ع) کی اور روایت نقل کرتے ہیں  جس میں  آپ (ع) نے فرمایا ہے کہ: { لاٰ خیرَ فی قرائۃٍ لاٰ تَدبّر فیہا}’’ ایسی قرائت کا کوئی فائدہ نہیں  ہے جس میں  غور و فکر نہ ہو‘‘۔ایک اور جگہ پر امام خمینی  )ره       ) لکھتے ہیں  کہ ’’تلاوت قرآن مجید کا مقصود اس کا دل کی گہرائیوں  پر اثر کرنا ہے‘‘۔آپ ایک اور جگہ پر کہتے ہیں  کہ ’’قرآن کریم کی تلاوت کا مقصد یہ ہے کہ دلوں  میں  اس کی صورت نقش ہوجائے۔ اس کے اوامر ونواہی کی تاثیر ہو اور اس کی دعوتیں  اپنی جگہ بنالیں ‘‘۔(شرح چہل حدیث، ص ۴۹۸)
قرآن کریم کے ماہرین کلمات کی ادائیگی پر توجہ دینے اور حروف کو مخارج سے اس طرح ادا کرنے میں  وقت صرف کرنے کو کہ معنی اور غور وفکر سے غفلت ہوجائے، آداب تلاوت نہیں  جانتے ہیں ، بلکہ ان کے نزدیک تلاوت کے آداب کا مطلب یہ ہے کہ قاری تلاوت کرنے سے  نتیجہ حاصل کرے اور اس کی زندگی میں  تبدیلی پیدا ہو۔ اسی لئے امام خمینی  (ره) فرماتے ہیں : ’’آداب قرائت سے مقصود وہ نہیں  ہے جو بعض قراء کے ہاں  رائج ہے کہ سارا زور الفاظ کے مخارج اور حروف کی ادائیگی پر اس طرح لگا دیا جائے کہ جو اس کے معانی اور اس میں  غور وفکر سے ہماری غفلت کے علاوہ اس بات پر بھی منتج ہو کہ تجوید بھی باطل ہوجائے، بلکہ بہت سے کلمات اپنی اصل صورت سے دوسری صورت میں  تبدیل ہوجائیں  اور ان کا مادہ وصورت ہی بدل جائے‘‘۔(شرح چہل حدیث، ص ۴۹۹)
اہم نکتہ یہ ہے کہ آپ اس قسم کی قرائت کو کہ انسان ظاہر میں  مشغول ہوجائے، معنی پر توجہ نہ دے اور یہ اس کی روزمرہ کی عادت بن جائے، ایک ایسا شیطانی حربہ قرار دیتے ہیں  کہ پرہیزگار انسان زندگی بھر صرف الفاظ قرآن میں  مشغول رہے اور راز نزول قرآن اور حقیقت اوامر ونواہی، اخلاق حسنہ اور معارف قرآنی سے غافل ہوجائے۔
بہرحال، آپ قاریوں  کے اس گروہ کی سرزنش کرتے ہیں  کہ اس گروہ نے پچاس سال کی قرائت کے بعد بھی مقصد نزول اور پیام قرآن کی طرف توجہ نہیں  کی اور صرف الفاظ وحروف کے ظاہر اور ان کی تشدید وتغلیظ میں  مصروف رہا اور قرآن کی تلاوت نے عجیب صورتحال اختیار کر لی ہے۔
 تلاوت قرآن کے موثر اور غور وفکر کا راستہ ہموار ہونے کیلئے ضروری ہے کہ کلام کے قدسی ہونے کی طرف متوجہ رہنے اور خود کو خداوند عالم کی بارگاہ میں  دیکھنے کے علاوہ قاری حضور قلب بھی رکھتا ہو۔ تلاوت قرآن کے آداب میں  سے ایک یہ بھی ہے کہ تلاوت کرتے وقت قرآن کی عظمت اور اس کا قدسی ہونا پیش نظر رہے۔ قرآن کی تلاوت کرنے والے کو یہ تصور کرنا چاہیے کہ خدائے بزرگ وبرتر اس سے ہم کلام ہے۔ وہ اس خدائے محبوب کا کلام سن رہا ہے جو اس کی راہنمائی کر رہا ہے۔ اس بارے میں  امام خمینی  (ره) فرماتے ہیں :
’’
کتاب الٰہی کی تلاوت کا ایک اہم ادب کہ جس میں  عارف اور عام آدمی شریک ہوتے ہیں  اور جس کے اچھے نتائج حاصل ہوتے ہیں  اور جو دل کی نورانیت اور باطن کے زندہ ہونے کا باعث بنتا ہے، تعظیم ہے، اور یہ تعظیم اس کی بڑائی، جلالت اور عظمت کے ادراک پر موقوف ہے‘‘۔(  آداب الصلاۃ، ص ۱۸۰)
تلاوت کے آداب میں  سے ایک اہم ادب یہ ہے کہ تلاوت کے ساتھ غور وخوض کیا جائے۔ امام خمینی(ره) نے کتاب ’’شرح چہل حدیث‘‘ اور ’’ آداب الصلاۃ‘‘ میں  اس بات کو مختلف پیرایوں  میں  بیان کیا ہے اور جیسا کہ ہم نے اس حصے کے مقدمے میں  اس کی اہمیت بیان کی ہے، امام خمینی(ره)  نے تجزئیے کے ساتھ اس کی اہمیت کی وضاحت کی ہے۔ حتی آپ ایک جگہ پر مادی مشکلات دور کرنے اور جسمانی بیماری کے علاج کے مقصد سے پیش کی جانے والی تلاوت پر تنقید کرتے ہیں  اور کہتے ہیں  کہ قرآن شریف سے صرف مادی مقاصد اور صرف بیماریوں  کی شفا طلب نہ کی جائے، اپنا اہم مقصد روحانی بیماریوں  کا علاج قرار دو کہ جو قرآن کا اصل مقصد ہے۔ قرآن صرف جسمانی بیماریوں  کیلئے نازل نہیں  ہوا اگرچہ اس سے جسمانی امراض کا بھی علاج ہوتا ہے۔( آداب الصلاۃ، ص ۲۰۵)