التبیان کرگل لداخ

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

التبیان کرگل لداخ

وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِینَ

۲ مطلب با موضوع «معارف» ثبت شده است

 

 قرآن کی فضیلت 

2- قرآن کریم بیماریوں کا علاج:

ا- وَنُنَزِّلُ مِنَ ٱلۡقُرۡءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٞ وَرَحۡمَةٞ لِّلۡمُؤۡمِنِینَۙ وَلَا یَزِیدُ ٱلظَّـٰلِمِینَ إِلَّا خَسَارٗا "سوره اسرا آیه ٨٢"

اور ہم قرآن میں سے ایسی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنین کے لیے تو شفا اور رحمت ہے لیکن ظالموں کے لیے تو صرف خسارے میں اضافہ کرتی ہے

"شِفَاءٌ"کیونکہ قرآن خدا کی طرف سے ہے جو انسان اور اس کی فطرت کا خالق ہے، اس کے قوانین بھی اس کی فطرت اور اس کے نجات دہندہ کے مطابق ہیں۔


ب- قال رسول الله ص: فَإِذَا الْتَبَسَتْ عَلَیْکُمُ الْفِتَنُ کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ فَعَلَیْکُمْ بِالْقُرْآنِ» الکافی (ط - الإسلامیة)، ج‏۲، ص: ۵۹۸ وسائل الشیعة، ج‏۶، ص: ۱۷۱ بحار الأنوار (ط - بیروت)، ج‏۷۴، ص: ۱۳۴

رسول خدا  ص فرماتے ہیں:  جب بھی فتنے آپ کو اندھیری رات کے حصوں کی طرح شک میں مبتلا کریں تو قرآن کی طرف رجوع کریں،

یعنی فتنہ کا مطلب وہ ہے جو انسان کو بے چین، بے یقینی اور جاہل بنا دے اور انسان کی روح، دماغ اور جسم پر دباؤ ڈالے۔

ج-   الإمامُ علیٌّ علیه السلام : فَاسْتَشْفُوهُ مِنْ أَدْوَائِکُمْ وَ اسْتَعِینُوا بِهِ عَلَى لَأْوَائِکُمْ، فَإِنَّ فِیهِ شِفَاءً مِنْ أَکْبَرِ الدَّاءِ وَ هُوَ الْکُفْرُ وَ النِّفَاقُ وَ الْغَیُّ وَ الضَّلَالُ.

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:  "نهج البلاغه ، خطبه 176 "اپنے دردوں،بیماریوں کا علاج قرآن سے تلاش کرو اور اپنی پریشانیوں میں قرآن سے مدد لو کیونکہ قرآن سب سے بڑی بیماری کا علاج ہے (وہ بیماری) جو کفر، نفاق، بغاوت اور گمراہی ہے.

د- قرآن کی دوا کوئی نقصان نہیں پہنچاتی:

قرآنی استدلال فکری جمود mental retardation))کو دور کرتا ہے۔

قرآن کی تبلیغ ظلم کا علاج کرتی ہے۔

  قرآن کی تاریخ الجھنوں کو دور کرتی ہے۔

  قرآن کی خوبصورت موسیقی اور  فصاحت و بلاغت مفرور (فرار) روح کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

  اس کے اصول و ضوابط توہم پرستانہ ،وسواس عادات کو ختم کرتے ہیں۔ 

اس کی تلاوت اور اس پر غور و فکر کرنے سے غفلت کی بیماری سے شفا ملتی ہے۔

اس کی برکت سے جسمانی بیماریاں دور ہوتی ہیں اور اس کی ہدایت سے اندھیرے روشن ہوتے ہیں۔

قرآن کی شفا میں مادی ادویات کی شفا کے ساتھ بہت سے اختلافات ہیں۔

  قرآن کی دوا کوئی نقصان نہیں پہنچاتی،

پرانی نہیں ہوتی اور اس کی کوئی میعاد ختم نہیں ہوتی۔

  قرآن کی شفاء دوسروں کی شفاء کا باعث بنتی ہے۔ 

قرآن مجید کے شفاء کے نسخے میں کوئی غلطی نہیں ہے، یہ ہمیشہ سب کے لیے دستیاب ہے، اس دوا کا ڈاکٹر ہمیں جانتا ہے، ہم سے محبت کرتا ہے، اور اس کے نسخے کا نتیجہ ابدی ہے، اس کا نسخہ اور دوا ایک جیسی نہیں ہے۔"تفسیر النور- سوره اسراء أیه ٨٢"

 

قرآن کی فضیلت  

1-قرآن کی لافانی اور تازگی 

قال الله تعالی : تَبَارَکَ ٱلَّذِی نَزَّلَ ٱلۡفُرۡقَانَ عَلَىٰ عَبۡدِهِۦ لِیَکُونَ لِلۡعَٰلَمِینَ نَذِیرًا "سورہ فرقان آیہ 1"

بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا ہے تاکہ وہ سارے عالمین کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا بن جائے۔

فضیلت قرآن

  الإمامُ الصّادقُ علیه السلام ـ لمّا سُئلَ : ما بالُ القرآنِ لا یَزدادُ علَى النَّشرِ والدَّرسِ إلّا غَضاضَةً؟ ـ : لأنَّ اللّه َ تبارکَ وتعالى لم یَجعَلْهُ لِزمانٍ دونَ زَمانٍ ، ولا لِناسٍ دونَ ناسٍ ، فهُو فی کلِّ زَمانٍ جَدیدٌ ، وعِند کُلِّ قَومٍ غَضٌّ إلى یَومِ القِیامَةِ۔ بحارالانوار،ج٢،ص٢٨٠، 

امام صادق علیہ السلام - جب ان سے پوچھا گیا: اس میں کیا راز ہے کہ جتنا زیادہ قرآن پڑھا اور اس پر بحث کی جائے، اتنی ہی اس کی تازگی بڑھتی ہے؟ فرمایا: کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ( قرآن)صرف ایک خاص وقت اور خاص لوگوں کے لیے نہیں بنایا ہے۔ اس لیے یہ قیامت تک کسی بھی وقت اور کسی بھی قوم کے لیے تازہ اور تروتازہ ہے۔ 

 

وقیل لجعفر بن محمد الصادق: لم صار الشعر والخطب یمل ما أعید منها، والقرآن لا یمل؟ فقال:لأن القرآن حجة على أهل الدهر الثانی، کما هو حجة على أهل الدهر الأول، فکل طائفة تتلقاه غضا جدیدا ولأن کل امرئ فی نفسه متى أعاده وفکر فیه تلقى منه فی کل مرة علوما غضة، ولیس هذا کله فی الشعر والخطب. کشف الاسرار،ج٣، ص٧٠، 

 

امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا: کہ شعر، شاعری اور تقریر دہرائے جانے سے کیوں تھک جاتے ہیں اور قرآن دہرانے سے کبھی نہیں تھکتا؟ فرمایا: کیونکہ قرآن دوسرے دور کے لوگوں پر اسی طرح حجت ہے جس طرح پہلے دور کے لوگوں پر حجت ہے۔ ہر فرقہ کو نئی تازگی ملتی ہے، کیونکہ ہر وہ شخص جو قرآن کو اپنے نفس اور روح میں دہرائے اور زندگی بھر اس پر غور و فکر کرتا ہے، وہ قرآن سے علوم اور نئے علوم تک پہنچتا ہے اور شاعری اور تقریروں میں ایسا نہیں ہوتا۔