التبیان کرگل لداخ

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

التبیان کرگل لداخ

وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِینَ

 

وَ اِذَا رَاَیۡتَ ثَمَّ رَاَیۡتَ نَعِیۡمًا وَّ مُلۡکًا کَبِیۡرًا﴿۲۰﴾

اور آپ جہاں بھی نگاہ ڈالیں گے بڑی نعمت اور عظیم سلطنت نظر آئے گی۔

عٰلِیَہُمۡ ثِیَابُ سُنۡدُسٍ خُضۡرٌ وَّ اِسۡتَبۡرَقٌ ۫ وَّ حُلُّوۡۤا اَسَاوِرَ مِنۡ فِضَّۃٍ ۚ وَ سَقٰہُمۡ رَبُّہُمۡ شَرَابًا طَہُوۡرًا﴿۲۱﴾

ان کے اوپر سبز دیباج اور اطلس کے کپڑے ہوں گے، انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا رب انہیں پاکیزہ مشروب پلائے گا۔

اِنَّ ہٰذَا کَانَ لَکُمۡ جَزَآءً وَّ کَانَ سَعۡیُکُمۡ مَّشۡکُوۡرًا﴿٪۲۲﴾

یقینا یہ تمہارے لیے جزا ہے اور تمہاری یہ محنت قابل قدر ہے۔

تفسیرآیات ۲۰:👇

اور آپ جہاں بھی نظر دوڑائیں گے وہاں نعمت ہی نعمت نظر آئے گی۔ دنیا کی طرح نہیں ہے کہ ایک جگہ نعمت پائی جاتی ہے، دوسری جگہ نہیں پائی جاتی۔ پھر نَعِیْمًا کا ذکر نکرہ کے ساتھ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ نعمت بھی عظیم ہو گی۔

 

۲۔ مُلۡکًا کَبِیۡرًا: اور عظیم سلطنت کا مشاہدہ کرو گے۔ روایات کے مطابق عام جنتی کو بھی ایک سلطنت مل جائے گی۔ چنانچہ روایت میں ہے:

 

و ان ادناھم منزلۃ ینظر فی ملکہ من الف عام یری اقصاہ کما یری ادناہ۔۔۔۔ (بحار الانوار ۸: ۱۱۱)جنت کے کمترین درجہ والا اپنی سلطنت کو ایک ہزار سال کی مسافت کے فاصلے سے دیکھ لے گا اور دور ترین نقطے کو اس طرح دیکھے گا جس طرح نزدیک ترین نقطہ ہے۔

دوسری حدیث میں ہے:

 

ان ادنی اہل الجنۃ منزلا من لہ ثمانون الف خادم و اثنتان و تسعون درجۃ۔۔۔۔ (روضۃ الواعظین ۲: ۵۰۵)جنت کے کمترین درجہ والے کے لیے جنت میں اسی ہزار خادم ہوں گے اور بیانوے درجات پر فائز ہو گا۔

یہ عام اور معمول کی جنت ہے۔ اس آیت میں اہل بیت اطہار علیہم السلام کے لیے جس سلطنت کا ذکر ہے وہ جنت کے اعتبار سے عظیم سلطنت ہو گی۔ جس جنت کا ’’معمول‘‘ ہمارے لیے قابل اندازہ نہیں ہے، اس کا ’’عظیم‘‘ ہمارے لیے کیسے قابل تصور ہوگا اور جس سلطنت کو اللہ تعالیٰ عظیم فرمائے اس کی عظمت کا ہم کیسے اندازہ لگا سکتے ہیں۔

 

الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 9، صفحہ 424

تفسیر آیات ۲۱:👇

تشریح کلمات

سُنۡدُسٍ:دیباج کا کپڑا۔ کہتے ہیں سندس ریشم کا وہ کپڑا ہے جو نہایت باریک ہوتا ہے۔

اِسۡتَبۡرَقٌ:اطلس۔

تفسیر آیات

جنت والوں کی شاہانہ زندگی کا ذکر ہے کہ ان کے تن پر دیباج و اطلس کے نرم و نازک کپڑے ہوں گے اور ہاتھوں میں چاندی کے کنگن پہنے ہوئے ہوں گے۔ یہ اشارہ ہے شاہانہ زندگی کی طرف چونکہ اس دنیا میں جو لوگ شاہانہ زندگی گزارتے ہیں وہ اس طرح کی چیزوں سے اپنی شاہانہ زندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے دربار میں فرمایا: میں اللہ رب العالمین کا فرستادہ ہوں تو فرعون نے کہا تھا:

 

فَلَوۡ لَاۤ اُلۡقِیَ عَلَیۡہِ اَسۡوِرَۃٌ مِّنۡ ذَہَبٍ۔۔۔ (۴۳ زخرف: ۵۳)(اگر یہ اللہ کا نمائندہ ہے تو) اس پرسونے کے کنگن کیوں نہیں اتارے گئے۔

لہٰذا کنگن سے مراد وہ زیورات نہیں ہیں جو عورتیں پہنتی ہیں۔

 

۲۔ وَ سَقٰہُمۡ: یہ مشروب، اس سے پہلے مذکور دو مشروبوں سے مختلف، ایک پاکیزہ قسم کا ہو گا جس میں ایسی کوئی خاصیت نہ ہو گی جو انسان کے ذکر خدا سے تساہل برتنے کا سبب بنے بلکہ اس کے پینے سے ہر قسم کی غیر مطلوب چیزیں ختم ہو جائیں گی: یطھرہم عن کل شیء سوی اللّٰہ۔ (مجمع البیان) مشروب اہل جنت کو اللہ کے سوا سب چیزوں سے پاک کر دے گا۔

تفسیر آیات ۲۲ :👇

۔ اِنَّ ہٰذَا یہ اشارہ جنت کی ان نعمتوں کی طرف ہے جن کا ذکر گزشتہ آیات میں آیا ہے۔

 

۲۔ کَانَ لَکُمۡ جَزَآءً: پھر ان پاکیزہ ذوات سے خطاب کر کے فرمایا: یہ سب تمہارے لیے جزا اور ثواب کے طور پر ہے۔

 

۳۔ وَّ کَانَ سَعۡیُکُمۡ مَّشۡکُوۡرًا: یہ سب کچھ بلا استحقاق نہیں ملا کرتا بلکہ تمہاری ان محنتوں کے صلے میں ہے جنہیں تم نے دنیا میں تحمل کیا ہے اور اور یہ اجر، یہ ثواب ان زحمتوں کی قدردانی کے طور پر ہے جو رضائے رب کے لیے تم نے دنیا میں تحمل کی ہیں۔

 

ایک اہم اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ قرآن مجید جب بھی جنت کی نعمتوں کا ذکر کرتا ہے ان کے ساتھ حور العین کا ذکر کرتا ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں تمام نعمتوں کا ذکر آیاہے، نوعمر خادموں کا بھی ذکر آیا ہے لیکن جنت کی ایک اہم ترین نعمت، حور العین کا ذکر نہیں آیا۔ جناب آلوسی کو بھی روح المعانی میں اس بات کا ذکر کرنا ہی پڑا کہ یہ آیات اہل البیت (علیہم السلام) کی شان میں نازل ہونے کے بقول ان میں حور العین کا ذکر نہیں آیا جب کہ ان میں نو عمر خادموں تک کا ذکر آیا ہے: رعایۃ لحرمۃ البتول و قرۃ عین الرسول۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں ٹھنڈک حضرت بتول (س) کی حرمت کا لحاظ کرتے ہوئے حور العین کا ذکر نہیں کیا گیا۔

 

الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 9، صفحہ 425

دریافت

 

 

 

اَلَمۡ تَکُنۡ اٰیٰتِیۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَکُنۡتُمۡ بِہَا تُکَذِّبُوۡنَ﴿۱۰۵﴾

 کیا تم وہی نہیں ہو کہ جب میری آیات تمہیں سنائی جاتیں تو تم انہیں جھٹلاتے تھے؟

قَالُوۡا رَبَّنَا غَلَبَتۡ عَلَیۡنَا شِقۡوَتُنَا وَ کُنَّا قَوۡمًا ضَآلِّیۡنَ﴿۱۰۶﴾

 وہ کہیں گے: ہمارے رب! ہماری بدبختی ہم پر غالب آگئی تھی اور ہم گمراہ لوگ تھے۔

رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡہَا فَاِنۡ عُدۡنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوۡنَ﴿۱۰۷﴾

 اے ہمارے رب!ہمیں اس جگہ سے نکال دے، اگر ہم نے پھر وہی (جرائم) کیے تو ہم لوگ ظالم ہوں گے ۔

قَالَ اخۡسَـُٔوۡا فِیۡہَا وَ لَا تُکَلِّمُوۡنِ﴿۱۰۸﴾

 اللہ فرمائے گا: خوار ہو کر اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔

 

تفسیر آیات

۱۔ اَلَمۡ تَکُنۡ اٰیٰتِیۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ: ایک ایسا سوال جس میں ان کے جرائم کا پورا خاکہ موجود ہے اور آنے والے عذاب کا پورا نقشہ۔ وہ آیات الٰہی کی تکذیب کرتے ہیں۔

 

۲۔ اعترافی جواب ہے: ہماری شقاوت اور بدبختی ہم پر غالب آگئی تھی۔ ہمیں اعتراف ہے کہ ہم تجاوزکار ظالم تھے۔

 

بعض حضرات نے اسے اعتذاری جواب قرار دیا ہے کہ یہ تکذیبی عناصر (گویا اشعری مذہب کے مطابق) یہ عذر پیش کر رہے ہوں گے: اے اللہ! ہم نے تیری آیات کی تکذیب اس لیے کی کہ تو نے ازل میں یہی لکھ دیا تھا۔ تیرا فیصلہ غالب آگیا اور تکذیب ہو گئی۔ ہم نے اپنی خود مختاری سے تو نہیں کی۔ 

 (محاسن التاویل ۷: ۳۰۴)

 

صاحب محاسن التاویل کا جواب اشعری مذہب کے مطابق نہیں ہے اگرچہ اپنی جگہ درست ہے۔ جواب میں لکھتے ہیں:

 

(اول تو یہ نظریہ بذات خود باطل ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے ان کے حق میں وہ سعادت اور شقاوت ثبت فرمائی ہے جو یہ لوگ اپنے اختیار سے بجا لانے والے ہیں۔۔۔۔)

۳۔ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡہَا: آتش جہنم سے نکلنے کی خواہش کا اظہار ایک ناممکن امر کی درخواست ہے اور یہ وعدہ غلط اور جھوٹ ہے کہ ہم دوبارہ دنیا میں جا کر آیات الٰہی کی تکذیب کریں تو ہم سے بڑا ظالم کوئی نہ ہو گا۔

 

۴۔ قَالَ اخۡسَـُٔوۡا فِیۡہَا: جواب ملے گا: ذلت و خواری کے ساتھ اسی آتش میں پڑے رہو۔

 

۵۔ وَ لَا تُکَلِّمُوۡنِ: مجھ سے بات نہ کرو۔ ان ظالموں نے اللہ سے اس وقت بات نہیں کی جب اللہ ان سے فرما رہا تھا: 

ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ دار امتحان میں جن لوگوں نے اللہ سے بات نہیں کی اور نہ اللہ کی بات سنی انہیں دار جزا میں بات کرنے کی اجازت نہیں ملے گی۔

 

الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 5، صفحہ 411

دریافت

 

 

{ إِنَّ هَـٰذَا ٱلۡقُرۡءَانَ یَهۡدِی لِلَّتِی هِیَ أَقۡوَمُ وَیُبَشِّرُ ٱلۡمُؤۡمِنِینَ ٱلَّذِینَ یَعۡمَلُونَ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ أَنَّ لَهُمۡ أَجۡرࣰا کَبِیرࣰا }[سُورَةُ الإِسۡرَاءِ: ٩]

یہ قرآن یقینا اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھی ہے اور ان مومنین کو جو نیک اعمال بجا لاتے ہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔

 

جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کتاب عنایت فرمائی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنایا:

وَ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَـنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَلَّا تَتَّخِذُوۡا۔۔۔۔ (۱۷ اسراء: ۲)

اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس (کتاب) کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت قرار دیا۔۔۔۔

 

اسی طرح یہ قرآن بھی ذریعہ ہدایت ہے اور اس ہدایت سے فائدہ اٹھانے والوں کو یہ قرآن بشارت دیتا ہے۔ کامیابی کی بشارت، اجر عظیم کی بشارت۔

۱۔ اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ: یہ قرآن انسانیت کی ایک ایسی طریقت اور شریعت کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو اقوم الطرق ہے۔ تمام نظامہائے حیات و دستور ہائے زندگی میں جامع ترین اور مستحکم ترین نظام کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔ قرآن، امت قرآن کو جس منزل کی طرف لے جانا چاہتا ہے وہاَقۡوَمُ ہے۔

 

نہایت مضبوط بنیادوں پر استوار ہے یہ نظام حیات:

  • اَقۡوَمُ یعنی ایسا جامع نظام حیات ہے جس میں زندگی کا کوئی گوشہ نظر انداز نہیں کیا گیا

  • اَقۡوَمُ یعنی ایسا معتدل نظام زندگی ہے جو انسانی فطری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔

  • اَقۡوَمُ یعنی ایسا نظام حیات جو عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورا کرتا ہے۔

  • اَقۡوَمُ یعنی ہر عصر کے لیے قابل عمل نظام حیات ہے۔

  • اَقۡوَمُ یعنی دنیا و آخرت دونوں کے تقاضے پورا کرتا ہے۔

  • اَقۡوَمُ یعنی اس پر عمل کرنا آسان اور انسانی طاقت کی حدود میں ہے۔

  • اَقۡوَمُ یعنی اس نظام زندگی کی شقوں میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

  • اَقۡوَمُ یعنی اس نظام زندگی میں کوئی روحانی اور مادی پہلو تشنہ نہیں ہے۔

 

۲۔ وَ یُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ: ایک جامع نظام حیات فراہم ہونے کے بعد اس پر ایمان لانے کی نوبت آتی ہے۔ ایمان کے بعد دستور حیات پر عمل کی نوبت آتی ہے اور پھر عمل کرنے میں کامیاب ہونے والوں کے لیے بشارت ملنا ایک قدرتی بات ہے۔

اہم نکات

۱۔ قرآنی بشارت، اس کے نظام اقوم پر عمل کرنے والوں کے لیے ہے۔

الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 4، صفحہ 494

آیہ 11 👇👇👇👇

 

وَ یَدۡعُ الۡاِنۡسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَہٗ بِالۡخَیۡرِ ؕ وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ عَجُوۡلًا﴿۱۱﴾

اور انسان کو جس طرح خیر مانگنا چاہیے اسی انداز سے شر مانگتا ہے اور انسان بڑا جلد باز ہے۔

تفسیر آیات

مکہ والے حضورؐ سے بار بار یہ مطالبہ کرتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے رہتے ہو۔ اس طرح وہ رحمت خدا مانگنے کی بجائے عذاب خدا مانگتے ہیں۔ دوسرے فقرے میں اس حماقت کے پیچھے موجود محرک کا ذکر ہے۔ وہ ہے انسان کی عجلت پسندی۔ یہ خصلت انسان کو عزت کی جگہ ذلت، کامیابی کی جگہ ناکامی اور خیر کی بجائے شر کی طرف لے جاتی ہے۔ چنانچہ انسان کی بیشتر ناکامیوں کا سبب یہی عجلت پسندی ہے۔ عجلت پسندی کا مغلوب انسان زمینی حقائق کی جگہ ذہنی آرزوؤں پر چلتا ہے اور ناکام ہو جاتا ہے۔

 

سابقہ آیت کے ساتھ اس آیت کا ربط اس طرح ہے کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھی ہے اور اس پر چلنے والوں کو بشارت دیتا ہے لیکن یہ عجلت پسند انسان اللہ کی عطا کردہ اس خیر کی جگہ شر کی طلب میں نکلتا ہے اور اس قرآن سے ہدایت حاصل کر کے رحمت الٰہی کا منتظر رہنے کی جگہ جلد بازی سے کام لیتے ہوئے شر کے دامن میں پھنس جاتا ہے۔ اعاذنا اللّٰہ من ذلک۔

 

اہم نکات

۱۔ انسان نادانی میں اپنی مصلحت کے خلاف دعا کر بیٹھتا ہے۔

۲۔ عجلت پسندی سے ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔

                               الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 4، صفحہ 495

دریافت


دریافت

 

وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا﴿۷۴ فرقان)

اور جو دعا کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ہماری ازواج اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا دے۔

 

۱۔ مؤمن کی اور ایک صفت یہ ہے کہ وہ اپنے رب سے دو چیزیں مانگتے ہیں:

الف: ازواج و اولاد سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملے۔ ان سے خوشی اور مسرت حاصل رہے۔ ظاہر ہے مؤمن کو ان سے مسرت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب یہ اللہ کی اطاعت اور اللہ کی معصیت سے پرہیز کریں۔ واضح رہے صالح اولاد قیامت کے دن اپنے والدین کو فائدہ دے سکتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا:

جَنّٰتُ عَدۡنٍ یَّدۡخُلُوۡنَہَا وَ مَنۡ صَلَحَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ۔۔۔۔ (۱۳ رعد: ۲۳)

(یعنی) ایسی دائمی جنتیں ہیں جن میں وہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آبا بھی۔۔۔۔

 

ب: وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا: ہمیں پرہیز گاروں کا ہر اول دستہ بنا دے کہ ہم آنے والوں کے لیے تقویٰ کی مثال بن جائیں۔ جیسا کہ حکم ہے:

فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۱۴۸)

پس تم لوگ نیکیوں کی طرف سبقت کرو۔۔۔۔

احادیث 

اہل بیت علیہم السلام کی قرائت میں آیا ہے:

و اجعل لنا من المتقین اماماً۔                     (بحار الانوار ۲۴: ۱۳۲)

ہمارے لیے تقویٰ والوں میں رہنما بنا دے۔

 

ابو سعید راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اے جبرئیل اس آیت میں ازواجنا کون ہیں؟

 کہا: خدیجہ ہیں۔

 فرمایا: ذریاتنا کون ہیں؟ 

کہا: فاطمہ۔

 فرمایا: قرۃ العین کون ہیں؟

 فرمایا: حسن و حسین۔ فرمایا: 

واجعلنا للمتقین اماماً کون ہیں؟ 

فرمایا: علی ہیں۔           (شواہد التنزیل ۱:۵۳۹ ذیل آیت)

 

ابان بن تغلب سے روایت ہے۔ 

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا:

نحن ہم اھل البیت۔ 

یہ ہم اہل بیت ہیں۔          (شواہد التنزیل۱: ۵۳۹)

ابن عباس راوی ہیں: 

یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (البرہان ذیل آیت)

 

اہم نکات

۱۔ ازدواج و اولاد کی اچھی تربیت دارین کے لیے فائدہ مند ہے۔

۲۔ مؤمن کو چاہیے کہ وہ تقویٰ کے لیے مثال بن جائے۔               الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 6، صفحہ ۵۳


دریافت

 

ہمارے رب! ہم جس بوجھ کے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے وہ ہمارے سر پر نہ رکھ۔۔ سورہ بقرہ آیہ 286

 

انسان پر اس کی طاقت کے مطابق ذمے داری اور مسؤ لیت عائد ہو تی ہے۔ طاقت کا دائرہ جتنا وسیع ہو گا اسی مقدارمیں اس کی مسؤلیت بھی وسیع ہوتی جائے گی۔ چنانچہ کم عقل کی نسبت عاقل پر اور کم علم کی نسبت عالم پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔

 

جس بوجھ کے اٹھانے کی طاقت ہم نہیں رکھتے وہ ہمارے سر پر نہ رکھ۔ اس سے غیر ممکن اور محال مراد نہیں ہے۔ کیونکہ کوئی عاقل کسی دوسرے کو ناممکن چیزوں کا حکم نہیں دیتا بلکہ مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ سے مراد وہ پرمشقت امور ہیں جن سے انسان عام طورپر عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔

 

خطا اور نسیان کی صورت میں اللہ سے عفو، مغفرت اور رحم طلب کرنے کے ذکر کے بعد ارشاد ہوا: اَنۡتَ مَوۡلٰىنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ ’’تو ہی ہمارا مالک اور کارساز ہے، پس کفار کے مقابلے میں ہماری نصرت فرما۔‘‘ اس جملے میں لفظ مَولَا کا معنی واضح ہو جاتا ہے کہ مدد اور نصرت مَولاَ سے طلب کی جاتی ہے۔ یہاں انۡصُرۡنَا کو فائے تفریع کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ مَولاَ وہ ہے جو تصرف کا حق رکھتا ہو اور اسے ولایت و حاکمیت حاصل ہو۔

 

 


مدت زمان: 13 ثانیه