قرآن سے انس و لگاؤ کے ایجاد میں تلاوت اور تکرار کا کردار
قرآن کو شروع سے آخر تک پڑھنا ایک ضروری امر ہے
قرآن کو اوّل سے آخر تک پڑھنا چاہئے،
پھر اول سے آخر تک ، تاکہ تمام قرآنی معارف سے انسان کا ذہن مجموعی طور اکٹھا آشنا ہو جائے۔.
انسان ہر دور میں قرآنی علاج اور راہ حل کا محتاج ہے
قرآن اپنے کو مختلف زبانوں میں پہچنواتا ہے، منجملہ ان میں سے فرماتا ہے : «إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ یَهْدِی لِلَّتِی هِیَ أَقْوَمُ (اسراء آیہ ۰۹ ): یعنی قرآن، انسان کو
بہترین راستہ،
بہترین نظام،
بہترین شیوه و طریقہ،
بہترین اخلاق اور سماجی و ذاتی عمل کی
بہترین راہوں کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ اس زمانے میں تمام انسان قرآن کے محتاج ہیں، لیکن اگر ہم مسلمان ہو کر قرآن پر عمل نہ کریں تو ہمارا گھانا و نقصان دوسروں سے کہیں زیادہ ہو گا، اس لئے کہ ہمارے پاس اس درد کا بہترین نسخہ اور دستور العمل موجود ہے، اس کا تاریخی تجربہ بھی ہمارے پاس ہے۔ صدر اسلام کے لوگوں نے قرآن پر عمل کی برکت سے علم میں، اخلاق میں، عمل میں نیز طرح طرح کی مادی و معنوی دنیا میں ترقیوں کی ارتقاء پر پہنچے ہوئے تھے۔ قرآن ہمیشہ زندہ ہے۔
قرآن کی روحانیت، دور حاضر کے انسان کی سازشوں کا واقعی علاج:
مادی دنیا میں موجود جنگ و جدال کی وجہ سے جو مشکلیں انسانوں کے دل و دماغ میں پیدا ہو گئی ہیں.
تھوڑی سی قرآنی حکمت و تدبیر ، ان تمام مشکلوں کی گرہوں کو کھول سکتی ہیں،
یہ سچ ہے کہ قرآنی حکمت دلوں کو کھولتی ہے،
سعۂ صدر عطا کرتی ہے،
امید دلاتی ہے،
نور عطا کرتی ہے ،
صراط مستقیم پر چلنے کا مصم ارادہ عطا کرتی ہے،
بنابر ایں قرآن کے ساتھ رہ کر ان چیزوں کو حاصل کرنا چاہئے۔
قرآن معرفت کی کتاب
قرآن کریم معرفت کی کتاب ہے، نورانی کتاب ہے۔
(وَمَا جَالَسَ هَذَا القُرآنَ أَحَدٌ إِلَّا قَامَ عَنْهُ بِزِیَادَة أَو نُقْصَانِ زِیَادَةٍ فِی هُدًى أو نُقصانٍ فی عمًى) یه کلام امام علی علیه السلام سے منسوب ہے ، آپ نے فرمایا : جو شخص قرآن کے ساتھ بیٹھے گا اور جب بھی اٹھے گا یا اس کے اندر ہدایت میں اضافہ ہو گا یا اندھے پن اور بے معرفتی میں کمی آئے گی۔
اس کے اندر ایک چیز کا اضافہ ہو گا اور ایک چیز میں کمی آئے گی،
ہدایت میں اضافہ اور اندھے پن میں کمی،
گمراہی میں کمی یعنی انسان کی گمراہی کم ہو گی ۔
انسان کی ہدایت اور آگاہی میں اضافہ ہو گا۔
قرآن کے ساتھ نشست و برخاست اس طرح کی مفید شئے ہے،
البتہ یہ چیز قرآن میں غور و فکر اور تدبر سے حاصل ہو گی۔
قرآن کو غور و فکر سے پڑھنا چاہئے ،
ہمیں اس بات پر توجہ رکھنی چاہئے کہ فقط آوازوں کو اچھی بنانا مقصود و مطلوب نہیں ہے بلکہ قرآن کے معانی اور اس کے مطالب پر غور و فکر کرتے ہوئے پڑھنا چاہئے،
اگر اس طرح عمل ہوگا تو اس وقت اسلامی معاشرہ اپنے مقصد اور راستے کو تلاش کرلے گا۔
٢٦/١٠/٢٠١٤
قرآن بارش کے مانند ہے
قرآن بارش کی طرح ہے۔ اگر تمہارا دل ایک قابل صلاحیت و با استعداد زمین کی طرح ہو گا تو بارش نفوذ کرے گی۔
اپنے آپ کو آمادہ کرو، اپنے دلوں کو قرآن کی بارش کے سامنے قرار دو، تاکہ قرآن تمہارے دلوں کی گہرائیوں میں نفوذ کرے،
وہ خود ہی اپنے معانی و مفاہیم کو تمہارے لئے واضح و روشن کرے گا،
اس شرط کے ساتھ کہ تم قرآن سے انس ولگاؤ رکھو۔
١٤/١٢/١٩٩٦
میرے عزیزو ! قرآن نور ہے۔ حقیقت میں دل اور روح کو منور کرتا ہے۔ اگر قرآن سے انس ولگاؤ رکھو گے تو تمہارے دل و جان نورانی ہوں گے۔ بہت سی تاریکیاں ، جہالتیں اور مبہم چیزیں قرآن کریم کی برکت سے انسان کے دل و جان سے دور ہو جائیں گی۔ قرآن میں غور و فکر کرنا چاہئے، خود قرآن کریم متعدد جگہوں پر ہم کو تدبر کرنے کا حکم دیتا ہے،
اے میرے عزیزو ! اگر ہم نے قرآن سے تدبر کی صورت میں انس و لگاؤ رکھنا سیکھ لیا، تو جتنی چیزیں ہم نے کہی ہیں وہ سب حاصل ہوں گی۔ ابھی ہم اس سے بہت فاصلہ رکھتے ہیں لہذا ہمیں آگے بڑھنا چاہئے۔
۱۳۷۳/۱۰/۱۴