التبیان کرگل لداخ

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

قرآن اور حدیث کی خالص تعلیم و تشہیر

التبیان کرگل لداخ

وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِینَ

حفظ قرآن کی فضیلت

 

1- قرآن کریم: (وَ اذْکُرْنَ مَا یُتْلَى فِی بُیُوتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ اللهِ وَ الحِکْمَةِ) احزاب - ٣٤.

 تمہارے گھروں میں اللہ کی جن آیتوں اور حکمت کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انہیں یاد رکھنا۔ 

 

2 - پیغمبر اسلام : (لا یُعَذِّبُ اللهُ قَلباً وَعَى القُرآن) بحار الانوار ، ج ۸۹، ص ١٧٧ و ۱۷۸.

جس سینہ میں قرآن محفوظ ہے اللہ تعالی اسے عذاب نہیں کرے گا۔ 

 

3 - پیغمبر اسلام : (اقرَؤُا القَرآنَ وَ اسْتَظْهِرُوهُ فَإِنَّ اللهَ تَعَالَى لا یُعَذِّبُ قَلباً وَعَى القُرآنَ) مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ، ج ٤، ص ۲۴۵.

قرآن کی تلاوت کرو اور اسے محفوظ رکھو کیونکہ جس قلب میں قرآن ہے اللہ تعالی اس پر عذاب نہیں کرے گا۔

 

4 - پیغمبر اسلام : (مَنِ اسْتَظهَرَ الْقُرْآنَ وَ حَفِظَهُ وَ أَحَلَّ حَلالَهُ وَ حَرَّمَ حَرَامَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِ الْجَنَّةَ وَ شَفَّعَهُ فِی عَشَرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَیْتِهِ کُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَ لَهُ النَّار) مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ، ج ٤، ص ۲۴۵.

جو شخص قرآن کو حفظ کرے اور اسے محفوظ کرلے، اس کی حلال کردہ چیزوں کو حلال اور حرام کو حرام سمجھے تو خدائے متعال قرآن کی بنا پر اسے جنت میں داخل کرے گا اور اس کو اپنے گھر والوں میں سے دس آدمیوں کی شفاعت کا حق دے گا کہ جو جہنم کی آگ کے حقدار ہوں گے۔

 

5 - پیغمبر اسلام : (ثَلاثَةٌ یَزِدنَ فِی الحِفظِ ویَذْهَبْنَ بِالْبَلْغَمِ قِراَءَةُ القُرآنِ وَ العَسَلُ وَ اللُّبَانِ) صحیفة الرضا، ص ٦٨.

 تین چیزیں قوت حافظہ کو بڑھاتی ہیں اور بلغم کو ختم کرتی ہیں : قرآن کریم کی تلاوت ، شہد اور کُندر۔

 

3- معلم قرآن کی عظیم ذمہ داری 

قرآن کریم:  ﴿ یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیراً،﴾ سوره احزاب / ۴۵

ترجمه:  اے پیغمبر ! ہم نے آپ کو گواہ، بشارت دینے والا، عذاب الہی سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

 

 قَالَ رَسُولُ اَللَّه ﴿ إنَّ أوَّلَ النَّاسِ یُقضَى عَلَیهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ رَجُلٌ استُشهِدَ فَأتِىَ ... وَرَجُلٌ تَعْلَمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأَتِیَ بِهِ فَعَرَفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِیهَا؟ قَالَ: تَعلَمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُهُ وَقَرَآتُ فِیکَ الْقُرْآنَ قَالَ: کَذَبْتَ وَلَکِنَّکَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِیُقَالَ عَلاِمُ وَقَرَأتَ القُرآنَ لَیُقَالَ هُوَ قَارِئُ فَقَدْ قِیلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أَلقِیَ فِی النَّارِ  ﴾ الجامع لاحکام القرآن، ج ۱، ص ۱۸

ترجمه: سب سے پہلے جس شخص کو قیامت کے دن حساب و کتاب کے لئے لایا جائے گا وہ ایسا انسان ہو گا کہ راہ خدا میں درجہ شہادت پر فائز ہوا ہے ...

پھر اس آدمی کو لایا جائے گا جس نے قرآن کو سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور قرآن کی تلاوت کی ہے۔ خدائے متعال اس کی نعمتوں کو اس کے سامنے گنوائے گاوہ اسے قبول کرے گا، اس کے بعد اللہ پوچھے گا تم نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟۔

وہ جواب دے گا: میں نے علم کو سیکھا، اس کو دوسروں کو سکھایا اور قرآن کی تلاوت کی ہے ۔

پروردگار کہے گا: تم جھوٹ بول رہے ہو، تم نے علم حاصل کیا، تا کہ لوگ کہیں عالم انسان ہے ، تم نے قرآن کی قرآئت کی تاکہ لوگ کہیں : اچھا قاری ہے ؟؟۔ اسی طرح تھا بھی، پھر خداوند عالم حکم دے گا، اسے منھ کے بل کھنچتے ہوئے لے جا کر دوزخ کی آگ میں ڈال دو اور وہ دوزخ کی آگ میں ڈال دیا جائے گا۔

 

 قَالَ  الإمامُ عَلُی علیه السلام ﴿ اَنَّهُ أتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ وَاللهِ إنِّى لَأُحِبُّکَ لِلَّهِ فَقَالَ لَهُ لَکِنِّی أُبْغِضُکَ لِلَّهِ قَالَ وَ لِمَ قَالَ لِأَنَّکَ تَبْغِى عَلَى الْآذَانِ وَ تَأخُذُ عَلَى تَعْلِیمِ الْقُرْآنِ أَجْراً ﴾  الاستبصار فی ماختلف من الاخبار، ج ۳، ص ۶۵ .

ترجمه:  امام علی علیه السلام کے پاس ایک آدمی آیا اور کها :  خدا کی قسم میں آپ کو اللہ لئے دوست رکھتا ہوں، حضرت  علیه السلام نےفرمایا، لیکن میں تم کو دشمن رکھتا ہوں ، اس نے پوچھا کیوں ؟ حضرت علیه السلام نے فرمایا : اس لئے کہ تم نے اذان کو کمانے کا ذریعہ بنالیا ہے اور قرآن کو سکھانے کی اجرت لیتے ہو۔

1- قرآن کے معلم اور متعلم کی  برتری

1- قرآن کریم:  ﴿الرَّحْمَن عَلَّمَ القُرْآن  خدائے رحمان نے قرآن کی تعلیم دی ہے۔( سوره الرحمن،  1و2)

2-  پیامبراسلام ص : ﴿ خِیَارُکُم مَن تَعَلَّمَ القُرآنَ وَعَلَّمَهُ ﴾تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن کو سیکھیں اور دوسروں کو   سکھائیں۔ (و سائل الشیعه ، ج6، ص 167)

3-  پیامبراسلام ص: ﴿مَن عَلَّمَ آیَةً فِی کِتَابِ اللهِ تَعَالَى کَانَ لَهُ أَجرُهَا مَا تُلِبَت﴾  جو انسان قرآن کی کسی ایک آیت کی تعلیم دے گا تو جب تک اس آیت کی تلاوت ہوتی رہے گی اس کا اجر و ثواب اسے ملتار ہے گا۔(تفسیر البیان العصافی الکلام اللہ الوافی ، ج ۵، ص 194)

4-  پیامبراسلام ص:  ﴿مُعَلِّمُ الْقُرآنِ و مُتَعَلِّمُهُ یَسْتَغْفِرُ لَهُ کُلُّ شَیْءٍ حَتَّى الحُوتُ فِی البَحر﴾  قرآن کو سکھانے اور سیکھنے والے کے لئے ہر چیز طلب مغفرت کرتی ہے یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی اس کے لئے استغفار کرتی ہیں۔(تفسیر البیان العصافی الکلام اللہ الوافی ، ج ۵، ص 194)

5-  امام على علیہ السلام:  ﴿إنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَیَهُمُّ بِعَذَابِ أَهلِ الأَرضِ جَمِیعاً حَتَّى لا یُرُیدُ أَنْ یُحَاشِیَ مِنْهُمْ أَحَداً إِذَا عَمِلُوا بِالمَعَاصِی وَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ فَإذا نَظَرَ إِلَى الشِّیبِ نَاقِلِى أقدَامِهِم إِلَى الصَّلَواتِ وَالوِلدَانِ یَتَعَلَّمُونَ القُرآنَ رَحِمَهُمْ وَ آخَرَ عَنْهُمْ ذَلِک﴾ جب زمین والے گناہ کرتے ہیں اور برائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں تو بیشک خدائے عز و جل تمام اہل زمین پر عذاب کا ارادہ کرتا ہے اس حد تک کہ کسی کو اس عذاب سے الگ نہ کرے، پس جب وہ بوڑھوں کو دیکھتا ہے کہ مسجدوں کی طرف نماز کے لئے قدم بڑھاتے ہوئے جارہے ہیں اور بچوں کو دیکھتا ہے کہ وہ قرآن کو سیکھ رہے ہیں تو اہل نماز ضعیفوں اور قرآن سیکھنے والے بچوں کی وجہ سے لوگوں پر رحم کرتا ہے اور عذاب کو ان سے ٹال دیتا ہے۔ (بحار الانوار ، ج ۸۹، ص ۱۸۵)

6-   امام صادق  علیہ السلام : ﴿ یَنبَغِی لِلْمُؤْمِن أنْ لَا یَمُوتَ حَتَّى یَتَعَلَّمَ الْقُرْآن أَو یَکُونَ فِی تَعلِیمِهِ ﴾ مومن کے لئے سزاوار نہیں ہے

 

7- حضرت امام کا ظمعلیہ السلام  سے حفص نے نقل کیا: ﴿سَمِعْتُ مُوسَى بْنَ جَعْفَرِ علیہ السلام  یَقُولُ لِرَجُلٍ أَ تُحِبُّ الْبَقَاءَ فِی الدُّنْیَا فَقَالَ نَعَمْ فَقَالَ وَ لِمَ قَالَ لِقِرَاءَةِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فَسَکَتَ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ بَعْدَ سَاعَةٍ یَا حَفْصُ مَنْ مَاتَ مِنْ أَوْلِیَاتِنَا وَ شِیعَتِنَا وَ لَمْ یُحْسِنِ الْقُرْآنَ عَلَّمَ فِی قَبْرِهِ لِیَرْفَعَ اللَّهُ بِهِ مِنْ دَرَجَتِهِ فَإِنَّ دَرَجَاتِ الْجَنَّةِ عَلَى قَدْرِ آیَاتِ الْقُرْآنِ یُقَالُ لَهُ اقْرَأْ وَ ارْقَ فَیَقْرَأَ ثُمَّ یَرْقَى

ترجمه: حفص کہتے ہیں کہ میں نے حضرت موسی ابن جعفر علیہ السلام    ان سے سنا کہ ایک آدمی سے کہہ رہے تھے : کیا دنیا میں رہنا پسند کرتے ہو، اس نے عرض کیا : ہاں، آپ نے پوچھا: کس لئے ؟ اس نے کہا : قل ہو اللہ احد کی تلاوت کے لئے ، حضرت علیہ السلام   خاموش ہو گئے اور تھوڑی دیر کے بعد مجھ سے فرمایا : اے حفص ہمارے دوستوں اور شیعوں میں سے جو کوئی بھی مرجائے اور قرآن کو اچھی طرح پڑھنا نہ جانتا ہو تو اسے قبر میں قرآن کی تعلیم دی جائے گی تا کہ اللہ تعالٰی اس کے درجات کو بلند کرے کیونکہ جنت کے درجے قرآن کی آیتوں کے برابر ہیں، اس سے کہا جائے گا:پڑھو اور بلند درجہ پر جاؤ، پس وہ پڑھنے کا اور اوپر جائے گا۔ (اصول کافی ، ج ۲، ص ۶۰۶ )

8- حفص، امام کا ظم علیہ السلام   کے متعلق کہتے ہیں: ﴿فَمَا رَأَیْتُ أَحَداً أَشَدَّ خَوْفاً عَلَى نَفْسِهِ مِنْ مُوسَى بْن جَعْفَر علیہ السلام   وَلَا أرْجَى النَّاس وَکَانَتْ قِرَاءَتْهُ حُزْناً فَإذَا قَرَأَ فَکَأَنَّهُ یُخَاطِبُ إِنْسَاناً

ترجمه: حفص کہتے ہیں ،میں نے کسی  انسان کو حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام سے زیادہ خوف زدہ نہیں دیکھا اور ان سے زیادہ امیدوار بھی کسی کو نہیں دیکھا، وہ قرآن کو زنجیدہ و محزون اور گریہ کی حالت میں پڑھتے تھے اور جس وقت وہ قرآن کی تلاوت کرتے تھے ایسا لگتا تھا کہ کسی انسان سے بات کر رہے ہیں۔(اصول کافی ، ج ۲، ص ۶۰۶ )

9-  معصوم علیہ السلام   :﴿أَنَّ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرآنَ یُکْسَى یَوْمَ الْقِیَامَةِ حُلَتَیْنِ ثُمَّ یُقَالُ لَهُ: اقْرَأْ وَارقَا فَکُلَّمَا قَرَأ آیَةً صَعِدَ دَرَجَةً وَ یُکْسَى أَبْوَاهُ حُلَتَیْنِ إِنْ کَانَا مُؤْمِنَیْنِ، ثُمَّ یُقَالُ لَهُمَا: هَذَا لِمَا عَلَّمْتُمَاهُ الْقُرآنَ

ترجمه: بیشک جو شخص قرآن کو سیکھتا ہے، قیامت کے دن اسے دو جنتی لباس پہنائے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا پڑھو اور اوپر جاؤ ، پس جب بھی وہ آیت کی تلاوت کرے گا ایک درجہ بلندی پر جائے ۔ پھر اس کے ماں باپ کو بھی دو بہشتی لباس پہنائے جائیں گے، اس بعد ان سے کہا جائے گا کہ یہ مقام ومرتبہ جو تمہیں عطا کیا گیا ہے وہ اس لئے کہ تم نے اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم دی ہے۔ (ہدایتالامتهای احکام الائمۃ، ج ۳، ص ۶۵)

کیوں روزانہ قرآن  پڑھنا چاہیے؟

جس طرح ایک شخص روزمرہ کے کاموں کے لیے ایک نظام الاوقات تیار کرتا ہے اور اس کے مطابق روزمرہ کے کاموں کو کرنے کے لیے ہر صبح اپنے شیڈول کو دیکھتا ہے، اسی طرح ہر مسلمان جو قرآن پر عمل کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ قرآن کو مسلسل اور روزانہ دیکھیں اور اس میں سے کچھ آیتوں کی تلاوت کرے۔ تاکہ یہ دنیا اور آخرت میں قرآن کی ہدایات اور رہنمائی کی روشنی میں کارآمد ہو۔

جب کوئی شخص بیمار ہو، سفر کر رہا ہو یا خدا کی راہ میں لڑ رہا ہو تو بہت سی عبادتیں منسوخ یا رعایتی (Discount) ہو جاتی ہیں۔  لیکن خدا اس بات پر زور دیتا ہے کہ آپ ان معاملات میں بھی قرآن پڑھنے کی کوشش کریں:

 

إِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُومُ أَدْنَى مِنْ ثُلُثَیِ اللَّیْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِنَ الَّذِینَ مَعَکَ وَاللَّهُ یُقَدِّرُ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَیْکُمْ فَاقْرَءُوا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ عَلِمَ أَنْ سَیَکُونُ مِنْکُمْ مَرْضَى وَآخَرُونَ یَضْرِبُونَ فِی الْأَرْضِ یَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَآخَرُونَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ فَاقْرَءُوا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُ وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِکُمْ مِنْ خَیْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَیْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ .(سوره المزمل - آیه ۲۰)

(ترجمه) آپ کا پروردگار جانتا ہے کہ دو تہائی رات کے قریب یا نصف شب یا ایک تہائی رات قیام کرتے ہیں اور آپ کے ساتھ ایک گروہ اور بھی ہے اور اللہ دن و رات کا صحیح اندازہ رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ تم لوگ اس کا صحیح احصاءنہ کر سکوگے تو اس نے تمہارے اوپر مہربانی کر دی ہے اب جس قدر قرآن ممکن ہو اتنا پڑھ لو کہ وہ جانتا ہے کہ عنقریب تم میں سے بعض مریض ہوجائےں گے اور بعض رزق خدا کو تلاش کرنے کے لئے سفر میں چلے جائےں گے اور بعض راہِ خدا میں جہاد کریں گے تو جس قدر ممکن ہو تلاوت کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو اور اللہ کو قرض حسنہ دو اور پھر جو کچھ بھی اپنے نفس کے واسطے نیکی پیشگی پھیج دو گے اسے خدا کی بارگاہ میں حاضر پاگے ،بہتر اور اجر کے اعتبار سے عظیم تر۔اور اللہ سے استغفار کرو کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربا ن ہے.

 

  1. نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکموں میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن کو لگاتار پڑھا جائے جیسا کہ آپ نے فرمایا:

وَ عَلَیْکَ بِتِلاَوَةِ اَلْقُرْآنِ عَلَى کُلِّ حَالٍ  (الکافی، جلد 8، صفحہ 79)

(ترجمه)  ہر وقت اور ہر حال میں قرآن کی تلاوت کریں۔

 

  1. رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روایت میں زنگ آلود دلوں کے علاج کا حل بھی بیان فرمایا ہے:

إِنَّ لِلْقُلُوبِ صَدَأٌ کَصَدَإِ اَلنُّحَاسِ فَاجْلُوهَا بِالاِسْتِغْفَارِ وَ تِلاَوَةِ اَلْقُرْآنِ. (بحار الأنوار، جلد ۷۴، صفحه ۱۷۲)

(ترجمه)     بے شک دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے جیسے تانبے کو زنگ لگ گیا ہو، لہٰذا استغفار اور قرآن کی تلاوت کر کے اپنے دلوں کو پالش کریں۔

 

  1. ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

نَوِّرُوا بُیُوتَکُمْ بِتِلاَوَةِ اَلْقُرْآنِ وَ لاَ تَتَّخِذُوهَا قُبُوراً کَمَا فَعَلَتِ اَلْیَهُودُ وَ اَلنَّصَارَى صَلَّوْا فِی اَلْکَنَائِسِ وَ اَلْبِیَعِ وَ عَطَّلُوا بُیُوتَهُمْ فَإِنَّ اَلْبَیْتَ إِذَا کَثُرَ فِیهِ تِلاَوَةُ اَلْقُرْآنِ کَثُرَ خَیْرُهُ وَ اِتَّسَعَ أَهْلُهُ وَ أَضَاءَ لِأَهْلِ اَلسَّمَاءِ کَمَا تُضِیءُ نُجُومُ اَلسَّمَاءِ لِأَهْلِ اَلدُّنْیَا. (الکافی، جلد 2، صفحہ 610)

(ترجمه)   اپنے گھروں کو قرآن کی تلاوت سے روشن کرو اور انہیں قبرستان نہ بناؤ جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے کیا، اس کی خیر و برکت میں اضافہ ہو اور اس کے لوگ وسعتوں کو پہنچیں اور وہ گھر اہل آسمان کے لیے روشن ہو۔ آسمان کے ستارے زمین والوں کے لیے چمکتے ہیں۔

 

قرآن پڑھنے اور سننے کا ثواب

قرآن سننے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ . (سوره الأعراف - آیه ۲۰۴)

(ترجمه) جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر خدا کی رحمت ہو۔

  1. امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں۔

مَنْ قَرَأَ آیَةً مِنْ کِتَابِ اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فِی صَلاَتِهِ قَائِماً یُکْتَبُ لَهُ بِکُلِّ حَرْفٍ مِائَةُ حَسَنَةٍ فَإِذَا قَرَأَهَا فِی غَیْرِ صَلاَةٍ کَتَبَ اَللَّهُ لَهُ بِکُلِّ حَرْفٍ عَشْرَ حَسَنَاتٍ وَ إِنِ اِسْتَمَعَ اَلْقُرْآنَ کَتَبَ اَللَّهُ لَهُ بِکُلِّ حَرْفٍ حَسَنَةً ؛ (الکافی، جلد 2، صفحہ   ۶۱۱)

جو شخص نماز میں کھڑے ہو کر کتاب خدا کی ایک آیت کی تلاوت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر حرف کے بدلے سو نیکیاں لکھے گا اور اگر نماز کے علاوہ دوسری تلاوت کرے گا تو ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں لکھے گا،اور اگر  قرآن کو سنتا ہے ، تو خدا  ہر حرف کے بدلے ایک نیکی لکھ دیتا  ہے.

اس پر ایک احسان لکھو۔